Tuesday 14 July 2015

Moringa pterygosperma



نباتاتی نام : مورنگا پٹیروگاسپرما Botanical Name: Moringa pterygosperma Gaertn.de.Fruct
خاندان ©: مورنگیسی Family:Moringaceae
انگریزی نام: ہارس ریڈش ٹری Horse-raddish tree
دیسی نام: سوہانجنا Sohanjana
ابتدائی مسکن(ارتقائ): پاکستان اور سب ہمالیہ۔اور راولپنڈی میں پایاجاتا ہے۔
قسم: پت جھاڑ
شکل:                         قد: 10-12 میٹر
پتے : مرکب ہیں70-30 سینٹی میٹر لمبے،پتیاں سیدھی ہیں اور چھال مڑی ہوئی ہے ۔
پھولوں کا رنگ: سفید ،                   پھول آنے کا وقت: فروری اور اپریل۔پھول 2.4 سینٹی میٹر لمبے اور شہد کی خوشبو جیسے،لمبی پینسل کی طرح
پھل : پھل لمبا اور کیپسول کی طرح 50-25 سینٹی میٹر لمبا۔بیج اگست میں پکتا ہے اور 2.4 سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔
کاشت:بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔
جگہ کا انتخاب:ایک بہت غیر روادار درخت جو کے ایک اچھی قسم والی جگہوں پر پایا جاتا ہے اور نکاسی والی جگہوں پر اچھی پیدا وار ہوتی ہے۔
نمایاں خصوصیات:تیزی سے بڑھنے والا درخت،سایہ دار جس میں لگنے والی پھلیاں کھائی جاتی ہیں       
شاخ تراشی:
بیماریاں:
پیداوار : اس کی بڑھوتری اوسط درمیانی ہے۔
لکڑی کی خصوصیات
دانہ ©: سیدھا
رنگ: ہلکا
کثا فت : درمیانی
مظبوطی : نرم،کمزور،خانہ دار۔
استعمال ©:زیبائشی ،چارہ،درخت سے گوند نکلتی ہے ،بیج سے تیل اور رنگ حاصل ہوتا ہے،پھل پکایا اور کھایا جاتا ہے،درخت کی جڑیں ہارس ریڈش
 (horse raddish)کہلاتی ہیں

مورنگا ( سہا نجنہ) کرشماتی پودا مورنگا کثیرالمقاصد کرشماتی خوبیاں رکھنے والا پودا ہے۔ یہ نیچرل ملٹی وٹامن ہے، غذائیت سے مالا مال ہے۔ انسانوں اور جانوروں کیلئے بہت بڑی نعمت ہے۔ مورنگا کاتعارف نباتاتی نام ۔ مورنگا اولیفیرا Moringa Olifera مورنگا کو اردو میں سہانجنہ کہتے ہیں پنجابی میں بھی سہانجنہ ہی کے نام سے مشہور ہے۔ سندھی میں سہانجڑو کہتے ہیں۔ اس پودے کا قدرتی مسکن شمالی ہند اور جنوبی پاکستان ہے۔یہ درخت بیس سے پینتیس فٹ اونچا ہوتا ہے۔اس کو سال میں دو تین مرتبہ پھل اور پھول لگتے ہیں۔ اس کی لکڑی بہت نرم اور نازک ہوتی ہے۔اس کی ٹہنیوں سے باریک باریک شاخیں نکلتی ہیں جن پرچھوٹے چھوٹے پتے ایک دوسرے کے مقابل لگتے ہین۔ پھلیاں تقریباً ایک فٹ لمبی اور انگلی کے برابر موٹی ہوتی ہیں جن سے تکونے بیج نکلتے ہیں۔ اس درخت کے تنے سے کیکر کی مانند گوند نکلتا ہے۔ پھولوں کی رنگت کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں سفید اور سرخ پھولوں والا۔ تیل۔ مورنگا کے بیجوں سے 36٪ تیل نکلتا ہے۔ یہ تیل بے بو اور بے ذائقہ ہوتا ہے ۔ مدتوں پڑا رہنے سے بھی خراب نہیں ہوتا۔ ذائقہ ۔ قدرے تلخ مزاج ۔ گرم خشک درجہ سوم۔ افعال و استعمال ۔ مورنگا کے پھولوں پتوں گوںد اور جڑوں کو سرد بلغمی امراض میں مدتوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ نیوٹریشن کے لحاظ سے مورنگا کی اہمیت مورنگا کاپودا نہایت قیمتی اور کرشماتی خصوصیات کا حامل ہے اس پودےمیں تقریباً 92 غذائی اجزا یعنی نیوٹرینٹ اور 46 قدرتی انٹی آکسیڈنٹ (مانع عملِ تکسید مادے) موجود ہیں کوئی ایسا وٹامن ابھی تک دریافت نہیں ہوا جو اس پودے میں موجود نہ ہو۔ مورنگا کی ان خصوصیات کی وجہ سے اگر اس پودے کو غذائیت کا پاور ہائوس کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ نیو ٹرین ویلیو کے حساب سے اگر مورنگا کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ غذائیت کے اعتبار سے کوئی دوسرا درخت یا پودا اس کا مقابلہ نہیں کرتا۔ مورنگا کے پتوں کے 100 گرام پوڈر میں پروٹین کی مقدار دودھ اور دہی کی نسبت 2 گنا سے زیادہ ہے وٹامن سی کی مقدار 7 عدد سنگتروں سے زیادہ ہے وٹامن اے کی مقدار گاجر کی نسبت 4 گنا سے زیادہ ہے۔ آئرن کی مقدار بادام کی نسبت 3گنا زیادہ ہے۔ وٹامن ای کی مقدار پالک کی نسبت 3گنا سے زیادہ ہے۔ مورنگا انسان دوست کسان دوست اور غریب پرور درخت ہے۔ مورنگا میں بے پناہ شفائی خصوصیات پائی جاتی ہیں جدید تحقیق کے مطابق مورنگا سے سینکڑوں بیماریوں کاعلاج کامیابی سے کیا جا سکتا ہے۔ ایور وید ک طریقہ علاج میں 300 بیماریوں کا علاج مورنگا سے کیا جاتا ہے۔ مورنگا کے پتے انسانوں اور جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ غذائی قلت دور کرنے کیلئے مورنگا کادرخت ایک بہتریں حل ہے۔ شہرت یہ پودا اس وقت شہرت کی بلنڈیوں پر پہنچا جب افریقہ (سینیگال) مین قحط کے دوران اسے غزا کی کمی دور کرنے والے درخت کے طور پرچرچ کی طرف سے متعارف کروایا گیا۔ اس درخت کے پتوں نے نہ صرف انسانوں اور جانوروں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا بلکہ اس کے بیجوں کے سفوف سے پانی صاف کرکے پینے کے قابل بنایا گیا اور اس کے بیجوں اور تیل کو بہت سی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال کیا گیا۔ مورنگا ایک کثیرالمقاصد پودا ہے۔ غذائیت اور شفائی اجزا کی بدولت مورنگا کثیرالمقاصد پودا ہے۔ ہم اس کے ذریعے فصلوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھا سکتے ہین۔ اس کو پانی صاف کرنے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس پودے کو لائو سٹاک کی خوراک کے طور پر استعمال کرکے مویشیوں کو صحت مند اور فربہ کیاجاسکتا ہے اورانکے دودھ میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بیجوں سے حاصل ہونے والا تیل دنیا کا مہنگا ترین تیل ہے۔ اس تیل کو ناسا جیسے ادارے سپیس انویسٹی گیشن کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ غذائی اہمیت مورنگا کے پتوں کا 50گرام سفوف پورے دن کی غذائی ضروریات کیلئے کا فی ہے اورجسم میں غذائیت کے مختلف اجزائ کی کمی نہیں ہوتی۔ گوشت اور پھلوں جیسی مہنگی خوراک کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس سے ایک غریب آدمی آسانی سے اپنی غذائی ذروریات پوری کر سکتا ہے۔اپنے آپ کو صحت مند اور توانا رکھ سکتا ہے اور بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ مورنگا کے درخت کا ہر حصہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ہر حصے کو غذا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسکے تازہ پتوں کو پالک کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کو پکایا جا سکتاہے۔خشک کرکے سفوف بناکر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سلاد سے لیکر سالن تک بنایا جاسکتا ہے۔ اس کی پھلیان بھی پکائی جاتی ہیں۔ اس کی جڑوں کو بھی غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جڑوں میں البتہ ایک زہریلا الکلائیڈ پایا جا تا ہے لیکن اس کی مقدار خاصی کم ہوتی ہے۔ اس کے برے اثرات جڑوں کو بہت زیادہ استعمال کرنے سے ظاہر ہو سکتے ہیں۔ مورنگا کی مولیوں کا اکثر لوگ اچار بناکر استعمال کرتے ہیں جولزیز ہونے کے ساتھ ساتھ غذائی اور طبی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اسکے پھولون کی ڈوڈیوں کو عام طور پر سے گوشت کے ساتھ پکاکر بہت لزیز سالن تیار ہوتا ہے جسے تقریبًا پاکستان کے تمام علاقوں میں رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ کاشت اس کی کاشت مشکل لحالات میں بھی آسانی سے ممکن ہے۔ اس کی کاشت بیکار زمینوں میں جہاں کوئی دوسری فصل کاشت نہیں کی جاسکتی ممکن ہے۔ اس درخت کی اپنی غذائی ضروریات بہت کم ہیں ۔ اس کی جڑیں تنے سے تیں گنا نیچے زمیں میں جاکر خوراک تلاش کرتی ہیں۔ کاشت بذریعہ قلم جب مورنگا کے درخت پر پھول اور پھل موجود نہ ہون اس وقت تقریباً ایک انچ قطر موٹی اور 4 سے 6 فٹ لمبی قلمیں شاخیں کا ٹ کر تیار کرلیں۔ زمیں میں ایک مربع فٹ چوڑا اور تین فٹ گہرا گڑھا کھود لیں ۔ اس گڑھے کے درمیان میں قلم کھڑی کرکے گڑھے کو بھل خشک گلے سڑے پتوں اور دیسی گلی سڑی کھاد کو برابر مقدار میں مکس کرکے گڑھے کو اس سے بھر دیں اور قلم کے چاروں طرف تھوڑی ٹھوڑی مٹی چڑھا دیں۔ پانی اسطرح سے لگائیں کہ قلم کو صرف نمی پہنچے ڈائریکٹ پانی نہ ملے۔


No comments:

Post a Comment