Tuesday, 7 July 2015

Buchanania axillaris


نباتاتی نام : بچونیا ایگزیلاریسBuchanania axillaris Buchanania latifolia  Botanical Name:
خاندان :۔اینے کارڈیاسیا Anacardiaceae Family:
انگریزی نام: بچّانانیالینزن  
uddapah Almond Chironji fruits
دیسی نام: ٹیلے گو٬ سارہ(Telugo;Sara)
ابتدائی مسکن(ارتقائ):یہ درخت چھوٹے درختوں کے جنگلوں کی قسم میں مغربی جزیرہ نما علاقوں اور کو ہ ہمالیہ کی پہاڑیوں میں دریائے ستلج تک ملتا ہے۔اس کے علاوہ جنوب میں مرکزی انڈیا کے علاقے میں بھی ملتا ہے۔
قسم: پت جھاڑ



 شکل:                         قد: 15تا 20 میٹر   پھیلا : فٹ
پتے: پتّے سخت٬15 to 20رگوں کے حامل ٬سخت اور تقریبا ¿ سیدھے ہوتے ہیں۔ Petiole تقریبا ¿6 to 88 mmلمبا٬سیدھا اور کم بلوغت کا ہوتا ہے۔
 پھولوں کا رنگ:              پھول آنے کا وقت: مارچ
پھل : اس کا پھل جزوی گولائی والا٬drupe٬پچکا ہوا اور سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ گھٹلی سخت اور دوحصوں میں بٹی سی ہوتی ہے۔پھل اپریل اور مئی کے ماہ میں پک جاتا ہے۔ اور لمبے عرصے تک درخت پر ہی رہتاہے۔
کاشت: بذریعہ قلم اور بیج،پودا بیج کے ذریعے مناسب دستیابی ماحول سے اُگ آتا ہے۔ بشرطیکہ بیج گرتے ہی فورا ¿ ہی مناسب ڈھک جائے۔ پھل بارشوں کی وجہ سے (پہلے یا بعد)میں گِر جاتا ہے۔ہواو ¿ں اور بارشوں کی وجہ سے بیج مٹّی٬گارا٬کنکریاںیا گیلی گھاس سے ڈھک جاتا ہے۔ جلد ہی پھوٹ جاتا ہے۔ اور ننّھے پودے seedlingsنکل آتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ بڑھوتری پکڑتے جاتے ہیں۔ پودے کے اعضاءجلد ہی خشک ہو جاتے ہیں۔ یا پھر کچھ کیڑے اس کو کھا کر تباہ کر دیتے ہیں۔ اس پودے کی جھنڈنہ بنانے کی خاصیّت ہے۔اور محدود سے جڑیں چوسنے والے کیڑوں کو راغب کرتاہے۔لیکن یہی جڑیں چوسنے والے کیڑے پہاڑی اترائیوںمیں اس کی افزائش کو بڑھانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ان کیڑوںکی وجہ سے کہیں کہیں جڑیں ننگی ہو جاتی ہیں۔ جس سے افزائش آسان ہو جاتی ہے۔بیج کے طریق سے افزائش:۔ عملی طور پر بیج اپریل ٬مئی کے مہینوں میں درخت سے پھل اُتار کراور نرم گودا ہٹا کرحاصل کیے جاتے ہیں۔ تازہ بیجوں کو دھوپ سے بچایا جاتا ہے۔ اِنھیں ایک روز تک سایہ دار جگہ پر خشک کیا جاتا ہے۔ بیج کی کارآمد ہونے کی مدّت کچھ مختلف ہوتی ہے۔ جو ایک سال تک محیط ہے۔ بشرطیکہ درست طریق سے خشک اور سایہ دار جگہ پرحفاظت کی جائے۔ پھل سے حاصل شدہ بیج پر سخت اور پتھریلا کوٹ ہوتا ہے۔جو کہ زیادہ تر بیجوں کے ضیاع کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ضیاع سے بچنے کے لیے بیجوں کی کچھ پری ٹریٹمینٹ کرنا ضروری ہوتا ہے۔جس کاطریق کار کچھ یوں ہوتا ہے۔(کوئی بھی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔(1)سادہ ٹھنڈے پانی میں 4 to 6 دِن تک بگھوئے رکھنا۔ 80 to 100 deg C(2) کے گرم پانی میں پانی میںبگھو کر پانی ٹھنڈا ہونے دینا۔اور پھر 24 گھنٹے تک بگھوئے رکھنا۔(3) کسی میکانی طریق سے بیج کا کوٹ زخمی کر دینا۔(4)تیز گندھک(sulphuric acid) کے تیزاب میں کچھ دیر تک بگھونا۔ (5) Gibberlic acid 5 ppm  میں24 hrs کے لیے بگھونا۔بجائے نرسری میں لگا کر پھر منتقل کرنے کی بجائے اپنی اصل جگہ پر ہی لگانے مفید رہتے ہیں۔ البتہ بیج traysمیں یا پولیتھین کے تھیلوں میں جون کے مہینے میں لگانے مفید رہتے ہیں۔ نرم مٹی پربیج پھیلانے کے بعد اُن پر نرم دیسی کھاد والی مٹی سے ڈھانپ دینا مفید رہتا ہے۔ 15 to 25 دن کے اندر بیج کی germinationمکمل ہو جاتی ہے۔ اس طرح سے 60 to 70 % بیج کی germination ہو پاتی ہے۔ جبکہ پنیری میں سے 80 to 85 % پودے درخت بن پاتے ہیں۔ پنیری سے آگے کی نشوونما سست ہوتی ہے۔
قلم کے طریق سے افزائش(Vegetative propagation) :۔کٹائی کا طریقہ بھی مفید رہتا ہے۔1 x 15 cm کی سخت لکڑی والی قلمیںجس پر دو آنکھیں ٹھیک حالت میں ہوں۔ اُس سے بھی پودے لگائے جا سکتے ہیں۔
جگہ کا انتخاب:یہ درخت عام طور پرکٹے پھٹی زمینوں(erroded)٬لوکل تنگ گھاٹی والی دھرتیوں پر پرورش پاتا ہے۔کھڑا پانی اس کے لیے انتہائی مہلک ہوتا ہے۔جزوی سایہ دار جگہ مفید ہوتی ہے۔اور دھند اور کہر سے متاثر ہو کر کملا جاتا ہے۔
نمایاں خصوصیات:درخت کی پہچان گہرے بھورے سیاہ( مگر مچھ نما ٹہنیوں) اورسُرخ چمک دمک سے ہوتی ہے۔  
شاخ تراشی:
بیماریاں:نقصان دہ عوامل:۔جنوبی انڈیا سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق یہ نسل درج ذیل بیماریوں یا پریشانیوں کا شکار رہتی ہے ۔ IUCN "Lower risk least concen" catagory.

استعمال:۔اسکی جڑ٬پتّے اور پھل دیسی اور دیگر ادویات میں استعمال ہوتے ہیں۔ اسکی جڑیںacrid, astingent, cooling duprativeاور قبض کرنے والی خا صیّتوں کی حامل ہوتی ہیں۔یہ جذام(leprosyکوڑھ)٬جلدی(skin) ٬اور پیچس (diarrhoea ) کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اسکے پتّے کوُلنگ اثر کے لیے ٬ہاضمہ کی درستگی کے لیے٬بلغم اُتارنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل قسم کی اثرات کی حامل بیماریوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک میڈیم سائز کا درخت ہوتا ہے۔ اس کے بیج تیل کے حامل ہوتے ہیں۔ اور لوکل مارکیٹ میں فروخت کی جاتے ہیں۔purgative, depurative, aphrodisiac constipation, leprosy, skin diseases and seminal weakness اسکے پھلleprosy, skin diseases, gleet, ٬ جلنinflammations) ( ٬ اعصابی( nervous debility ) ٬burning sensation اور cardiac dibility, abdominal disorders, پر مبنی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیںقبض٬کھانسی٬دمہ٬seminal weakness٬بخار٬السرز(ulcers)٬جنرلdebility اورluxative مقاصد کے علاج کے لیے بھی مفید ہیں۔

Broussonetia papyrifera


نباتاتی نام :بروزو نیشیا پیپریفرا Botanical Name: Broussonetia papyrifera (L) L.Hertit.Ex Vent.
خاندان ©:موریسی Family:Moraceae
انگریزی نام:پیپر ملبری Paper mulberry
دیسی نام: کاغذی توت
ابتدائی مسکن(ارتقائ):جاپان،جنوبی یورپ ،ایشا اور چائنہ
قسم:سال بہ سال پتے جھاڑنے والا
شکل:تاج نما،گول                          قد:3 تا12میٹر               قطر:
 پتے : شکل میں متغیر(یہاں تک کہ ایک ہی شاخ پر) 5-20 سینٹی میٹر لمبے              
پھولوں کا رنگ:ذردی مائل سبز                              پھول آنے کا وقت: مار چ ا ور اگست ۔قطر میں 2 سے 3 سینٹی میٹر
 پھل ©:پھل میں 5 تا15 بیج ہوتے ہیں اور پھل مئی اور ستمبر میں پکتا ہے
پتے :شکل میں متغیر ہیں. بلیڈ lobed یا unlobed، لیکن وہ عام طور پر کنارے دانتےدار ، سطح پر ہلکے بال، تہہ پر ہلکے پیلے۔ ناہموار ساخت . طویل تقریبا 15 سے 20 سینٹی میٹر ۔علیحدہ درخت پر نر اور مادہ پھول ایک ساتھ ہوتے ہیں ، dioecious ہے۔نرپھول 8 سینٹی میٹر ۔ مادہ پھول تقریبا 2 سینٹی میٹر تک لمبے ہوتے ہیں
کاشت:بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،بیج چھوٹا ہوتا ہے۔پرندے بیج کو کھاتے ہیں۔ بیج ، زیر بچہ (sucker)۔ بیج ۔ گرین ہاو ¿س میں موسم خزاں یا موسم بہار میں بویا جائے ۔ C ° 5 1 پر۔ ایک سے 3 ماہ 1 کے اندر اندر اگا ہو جاتا ہے ۔ جولائی / اگست نصف پکی ہوئی لکڑی کی شاخ کی قلم 12 - 8 سینٹی میٹر طویل۔ کامیابی کی شرح 11 تا 78 فیصد۔یہ بیج سے اور پودوں کا مطلب کی طرف سے دونوں پیش کیا جاتا ہے. بیج چھوٹے ہیں. پرندے بیج کھاتے ہیں اور درخت کی تیزی سے پھیلنے میں مدد کرتے ہیں۔، نومبرمیں بالغ لکڑی کی شاخیں بطور قلم . موسم سرما میں جڑ کی قلم ۔ موسم بہار میں layering گٹی ۔
جگہ کا انتخاب:بہت سے آب و ہوا کی اقسام میں اگتا ہے. آسانی سے مناسب معیار کی کسی بھی زمین میں ایک گرم دھوپ کی پوزیشن میں کاشت خشک موسم مزاحم۔ ریتلی یا میرا مٹی۔سایہ میں بہت اچھی طرح سے ہے کہ ایک روادار درخت.۔یہ اچھی طرح سوھا، امیر زمین کی ایک قسم پر اگتا ہے، لیکن اضافہ نہیں کرے گاساتھ ساتھ غریب سائٹوں پر۔یہ بارش کی حد700 تا 2000 ملی میٹر سالانہ۔ یا اس سے زیادہ. IL ایک ذیلی مرطوب گرم، ذیلی اشنکٹبندیی مون سون کو ترجیح دیتی ہے ۔درجہ حرارت 40 C کے درجہ حرارت رینج کے ساتھ آب و ہوا900 میٹر تک. یہ آسانی coppices اور جارحانہ مشکوک سائٹوں پر قبضہ ہے. یہ مفت کی نسبتا کیڑے اور بیماری ہے.
نمایاں خصوصیات:یہ reforestation منصوبوں کے لئے ایک اچھا درخت ہے اس کے تیزی سے ترقی کی ہے اور خشک hillsides پر اس کے مناسب کی وجہ سے. یہ کر سکتے ہیں ایک فارم جنگلات درخت کے طور پر بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں. تاہم اس کی وجہ اس کے جارحانہ نوعیت کے، دیکھ بھال کی ضرورت ہے ایک نہیں ہے کے طور پر پودے لگانے کی سفارش کی جب ہوتا جا گھاس بچنے کا امکان. یہ ایک یہ بھی کیا جا رہا ہے cind ہے اگر الرجن، سرد جس کے نتیجے میں چھیںکنے اور کھانسی طور پر لیبل لگا. لکڑی کی ساخت: اناج: براہ راست.
شاخ تراشی:









بیماریاں:
رنگ: ہلکا براو ¿ن heartwood مند sapwood سفید سرمءہے.
کثافت: 5100 کلو کیلوری / کلوگرام کی کیلوری قیمت طاقت: روشنی اور آسانی سے ٹوٹنے والی۔استعمال کرتا ہے: چارہ، چھال
، کشرن کنٹرول، فرنیچر (گودا، تپہ کپڑے کے لئے)،
باکسز اور پیکنگ کے خانے، کھیلوں کا سامان، اور veneer اور پلائیووڈ.
پیداوار: تیز بڑھوتری ، اوسط 1cm کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ

استعمال ©: وسیع پیمانے پر اس کی چھال اور فائبر کے لئے کاشت کیا جاتا ہے۔ خوراک، ریشہ، اور ادویات کے لئے کئی صدیوں تک ایشیا اور کچھ پیسفک جزائر میں کاشت کیا گیا ہے. کاغذ کی تاریخ میں ایک اہم فائبر فصل ہے۔ handcrafted کاغذ، گولہ باری اور چادریں۔ کپڑے اندرونی چھال سے ٹیکسٹائل۔ بیگ اور بستر بنانے کے لئے۔ پلانٹ کی لکڑی کے فرنیچر اور برتن بنانے کے لئے مفید ہے، اور جڑوں رسی کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے. پھل اور پکا پتے کھانے کے قابل ہیں. پھل، پتے، اور چھال روایتی ادویات ۔ جلاب اور antipyretic کے طور پر۔ ایک سجاوٹی پلانٹ کے طور پر۔ خرابی اور فضائی آلودگی برداشت۔ سڑکوں کے کنارے پر ایک زمین کی تزئین کے طور پر مفید۔ جنگل reforestation 

Brachychiton diversifolia


نباتاتی نام :بریچی چٹن ڈائیورسی فولیا Botanical Name: Brachychiton diversifolia
خاندان ©:سٹر کو لی ایسی Family:Sterculiaceae
Family: Malvaceae  Family: Myrtaceae
انگریزی نام:کورا جونگ Kurrajong
دیسی نام: بڑا کیراٹا Barra kerrata
ابتدائی مسکن(ارتقائ): شمالی کورراجونگ، اشنکٹبندیی کورراجونگ، اراٹجا، ناننگوا ۔ شمالی آسٹریلیا




قسم:سدا بہار ۔ ، جھڑنے والے سیمی جھڑنے والے، چھوٹے درخت،
شکل:                          قد:14-18 میٹر
 پھولوں کا رنگ:سفیدی مائل مدھم ذرد     پھول آنے کا وقت: اپیل۔مئی چھوٹے نر اور مادہ پھول ۔ . تاریک گرے سیاہ پھل ۔ بیج کاںٹیدار بال کے۔ ۔ ان کے بال جلد پر خارش کا باعث بنتے ہیں۔
 پختہ پھل اکتوبر-دسمبر ۔
 پتیاں بیضوی ہیں یا شاذ و نادر ہی دل کی شکل کی ، 6-18 سنٹی میٹر طویل ، 3-10 سینٹی میٹر چوڑی۔ اوپرکی طرف سے چمکدار اور ایک ڈنٹھی پر بڑھتی ہیں جو 3-8 سینٹی میٹر لمبی ہے۔
کاشت:بیج ،بوائی سے پہلے گرم پانی سے ٹریٹ کریں اور رات بھر گرم پانی میں بگھو کر رکھیںبیج کا اگاو ¿ 3-6 ہفتوں میں ہو جائے گا اور بہترین نتائج 25ڈگری سینٹی گریڈ اوسط درجہ حرارت پر حاصل ہوںگے۔شرح اگاو ¿ 40-60 فیصد ۔بیج کئی سال تک اگاو ¿ کے قابل رہتا ہے۔
جگہ کا انتخاب:ساحلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ ذیلی طور پر مرطوب اور گرم اور مرطوب زون۔ گرم، ، نیم بارانی منطقہ میں ہے۔ مضبوط موسم گرما کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 440- 1500 ملی میٹر سالانہ بارش ۔ frost-free علاقے میں۔ ساحلی ریت کے ٹیلوں پر واقع نہیں۔
نمایاں خصوصیات: تیزی سے بڑھتے ہوئے                ۔ ٹرپیکل درخت                              شاخ تراشی:
بیماریاں:
استعمال ©: لکڑی ہلکی اور نرم اور بہت پائیدار نہیں ہے۔ یہ لکڑی ٹمبر کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ ایندھن ۔ پتیوں بھیڑیں اور مویشی کے کھانے کے لیے۔ سایہ دار درخت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔بیج غذائیت سے بھرپور ہیں اور خام یا بھونے ہوئے کھائے جاتے ہیں۔ماچس کی تیلیاں۔ پتے، چھال اور گوند ادویات کے طور پر جلد کے زخموں اور بخار کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ، اور اندرونی چھال کا عرق آنکھ دھونے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔دھوپ پوزیشن ۔ اچھی نکاس والی معتدل زرخیز مٹی۔

Bosewellia serrata


نباتاتی نام بوسی ویلیاسیرّاٹا Bosewellia serrata  Botanical Name:
خاندان : برسیراسیاBurseraceae Family:
دیسی نام:۔ڈھوپا Dhoopa
انگریزی نام:
قسم:پت جھاڑ
ابتدائی مسکن(ارتقائ):۔انڈیا کے اندر اس نسل کا پایا جانا خشک پہاڑیوں تک محدود ہے۔متذکرہ خشک پہاڑیاں مرکزی انڈیا سے جنوبی جزیرہ نما تک پپھیلی ہوئی ہیں۔ یہ درخت عام طور پر نوک داراُترائیوں اور پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر ملتے ہیں۔ جب کہ زرخیز علاقوں میں بہت بڑے سائز کے بھی ہو جاتے ہیں۔
شکل:                         قد:
 پتے:پتّے چھوٹّے چھوٹّے بغیر کوئی رویں دارگچھے کی شکل میں ٬اور نچلی طرف سے کھردرے ہوتے ہیں۔
پھل:۔پھل pyrenes(A nut let: often seen as one of the small stones of a drupe or similar fruit)ہوتے ہیں۔ ایک پھل میں صرف ایک بیج ہوتا ہے۔جو کہ اطراف میں پر سے پھیلائے ہوتا ہے۔ یہ بیج سبز پیلے رنگ کے
ہوتے ہیں۔ اور دِل کی شکل کے ہوتے ہیں
پھولوں کا رنگ:پیلے گلابی یا سفیدرنگ                       پھول آنے کا وقت: یہ اپنی پیلی کاغذی چھال سے پہچانا جاتا ہے۔جو کہ باقاعدگی سے چھلکوں کی صورت میںلیکن بے قاعدہ سے ڈیزائن میں اُترتی رہتی ہے۔یہ ایک درمیانہ سے قدرے بڑا پت جھڑموسم والادرخت ہوتاہے۔ جس کا کچھ پھیلاو ¿ ہوتا ہے۔ اور شاخیں جھکی جھکی ہتی ہیں۔چھال بہت پتلی٬بھوری سبز سی اور کاغذ
جگہ کا انتخاب: اس پودے کو سُرخی مائل چکنی مٹی میں اُگایا جاتا ہے۔یہ درخت1150میٹر کی بلندیوں پر صحیح پرورش پاتا ہے۔ اور بہت ہی زیادہ سورج کی روشنی کا تقاضا کرتا ہے۔ جب کہ آندھیوں کی شدید مزاحمت کرتا ہے۔ بارش کی حد750 تا1500 ملی میٹر سالانہ۔درجہ حرارت
40 تا 47.5ڈگری سینٹی گریڈ۔ سردی بھی برداشت کر لیتاہے
کاشت:
نمایاں خصوصیات:


شاخ تراشی:
بیماریاں:
افزائش:۔ یہ بیج اور دیگر غیر جنسی ذرائع سے لگایا جا سکتا ہے۔
بیج کا طریقہ:۔مئی کے مہینے میں پکے ہوئے پھل اُتار لیے جاتے ہیں۔ بیج علیحدہ کر کے اُنھیں پانی میں بھگو دیتے ہیں۔ صرف اُن ہی بیجوں کواُگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ بیج سنبھالنے کی مدّت بہت تھوڑی یعنی زیادہ سے زیادہ 6 ماہ ہوتی ہے۔اُگانے کا موقع مارچ سے جون تک مناسب ہوتا ہے۔بیج اُگانے کا موسم مارچ سے جون تک مناسب ہوتا ہے۔ لیکن جون کے مہینے میں مون سون شروع ہوتے ہی اُگانا مناسب رہتا ہے۔ بیج کواُگانے سے قبل 24 hrsتک پانی میںبگھو دینا چاہیے۔ بیج سے پودے 7 to 15 days میں پھوٹنے لگ جاتے ہیں۔ تقریبا ¿ 50 % پودے پھوٹ پڑتے ہیں۔
غیر جنسی طریقہ :۔یہ چھوٹی کٹنگ یعنی قلموں کے ذریعے اور root suckers کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
 (a)چھوٹی کٹنگ یعنی قلموں کے ذریعے:۔یہ قلمیں 7.5 to 10 cm dia کی اور 1.8m لمبائی کی ہونی مناسب رہتی ہیں۔ نچلے حصہ کو
کافی ترچھا کٹ اور اور آخری حصہ کو سفیدآئل پینٹ کر کے ڈھک دیتے ہیں۔ گڑھے کی گہرائی 45 to 60 cm مفید رہتی ہے۔ قلم کو لٹا کر قدرے گیلی مٹّی اُس پر کافی زیادہ دبا دی جاتی ہے۔ باقی مٹی کو قدرے کم دبایا جاتا ہے۔ یہ عمل بارشوں سے دو ماہ قبل کرنا مفید رہتا ہے۔ انڈیا کے حساب سے اپریل کے آخر اور مئی کے ابتدائی ہفتہ مناسب رہتا ہے۔ تقریبا ¿ 70 to 80 %ایسی کٹنگ پھوٹ کر پودا بننے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اور 70 % پورا پودا بن پاتی ہیں۔
Root suckers (b) کے ذریعے:۔یہ suckers تقریبا ¿45 to 60 cmموٹائی کے تنے سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ جو کہ جون سے جولائی کے مہینے میں افزائش کیے جاتے ہیں۔ پودا پھوٹنے کا موقع ایک رات سے تیس دن تک کا ہے۔
بعد از افزائش احتیاطیں:۔اپریل سے مئی کے دوران 8 to 10 ہفتے عمر کے پودے کسی مناسب جگہ پر لگائے جانے چاہییں۔ ابتدائی شجر کاری کی فصل مناسب کنٹینروں میں تیار کی جاتی ہے۔ یہ جلدی تیار ہو جاتی ہے۔ مناسب ہے کہ ان کو چرنے والے جانوروں سے بچایا جائے۔ پھر اُسے پولی تھین تھیلوں میں ڈال کر منتقلی کے لیے تیار رکھتے ہیں۔جسے 10 t0 12ہفتوں میں لگا دینا چاہیے۔ زیادہ دیر کرنی درست نہیں ہے۔ پودے جلدی ضائع ہو سکتے ہیں۔ 45 %پودے درخت بننے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
استعمال:۔اس کی گوُند اور چھلکا ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ادویات السرز٬چھاتی کی جکڑن٬بواسیر٬جلدی بیماریاں٬ڈھیلے موشن٬اور پیچس کی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بخاروں٬تشنّج٬اینٹھٹن٬مروڑ٬دمہ٬کھانسی٬پرانی بگڑی ہوئی نرخرہ کی تکلیف٬یرقان اور آرتھرائیٹس میں بھی یہ گوُند اور چھلکا ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اس کی گوند لوبان جیسی خوشبو کے لیے استعمال ہوتی ہے۔(اس مقصد کے لیے گُوند کو باریک کر کے کو دھکتے ہوئے کوئلوں پر ڈالا جاتا ہے۔پھر بعد میں خوشبو سی نکلتی ہے پھل اور بیج کھانے کے کام بھی آتے ہیں۔ اس سےoleo gums بھی تیار کی جاتی ہیں۔ جس کے 3 اصولی اجزاء تارپین نما تیل٬rosin like resin ٬اور مخصوص گوُندہوتے ہیں۔یہ تیل تارپین کے تیل کے نعم ا لبلد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ Rosin گندا بروزہ جیسا ہی ہوتا ہے۔اور صابن سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ مخصوص گُوندسفید کپڑا٬چھینٹ کی رنگائی میں استعمال ہوتی ہے۔


Bombax malabaricum


نباتاتی نام :بمبکس مالا بریکم Botanical Name: Bombax malabaricum
خاندان ©:بمبیسی Family:Bombaceae
انگریزی نام: سلک کاٹن ٹری Silk cotton tree
دیسی نام:سمبل،سمل Sumbul ,Simal
ابتدائی مسکن(ارتقائ): آسٹریلیا           ڈسٹری بیوشن:۔انڈیا میں یہ منطقہ یا ٹراپیکل اور سب منطقہ یاسب ٹراپیکل علاقوں میں1500 میٹر تک بلندی والی جگہوں پر پایا جاتا
قسم:پت جھاڑ
شکل:                         قد:30-40 میٹر ۔ قطر میں 80 سینٹی میٹر
 پھولوں کا رنگ:سرخ اور نارنجی                            پھول آنے کا وقت:فروری۔مارچ ،بڑے سائز کے٬سُرخ رنگ کے اور ریشمی سے ہوتے ہیں۔
پھل:۔یہ ایک کیپسول کی طرح بیضوی سی شے ہوتی ہے۔ اس میں لا تعداد بیج ہوتے ہیں۔ جو کہ گھاڑھے ریشم جیسے میٹیریل سے بھرے ہوتے ہیں
 شاخیں: باقاعدہ دائر ہ میں ہیں ۔ چھال ہلکی بھوری یا سرمئی اور کافی ہموار۔تنا اور شاخیں بڑے مخروطی کانٹوں پر مشتمل ہیں.
 پتے: بہت بلند و بالا درخت جو پت جھڑ کے موسم میں پتّے جھاڑتا ہے۔ اور کانٹے دار ہوتا ہے۔ٹہنییوںپر پتّوں کا گچھا ایک ہی جگہ سے نکلنے والا درخت ہوتا ہے۔5-7 نکیلی پتیاں، 10-20 سینٹی میٹر طویل، leathery اور ہموار. ۔پتّے کافی بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ پتےّ بغیر کسی رویںبال کے ہتھیلی نما ہوتے ہیں اورمرکّبات سے بھرپور ہوتے ہیں۔اور ایک پتّوں کے گروہ میں 5 to7 پتیاں ہوتی ہیں۔
کاشت:بیج بڑھوتری:۔یہ پودا بیج اور vegetative means دونوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ (i) بیج کا طریقہ:۔پکّے ہوئے پھل کے کیپسول مارچ اور مئی کے دنوں میں پھٹنے سے قبل توڑے جاتے ہیں۔اُن کو خشک کیا جاتا ہے۔ توڑنے کے بعد کاٹن کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔اس مقصد کے لیے بیج کو علیحدہ کرنے کے لیے اُن کو gunny bagsمیں بند کر کے چھڑیوں سے پیٹا جاتا ہے۔ بیج کاٹن کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ کاٹن کونکال لیتے ہیں۔ اور بیج باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ 1 to 2 years کے لیے کارآمد رہتے ہیں۔ تازہ بیجوں کو ٹریٹمینٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔انھیں مئی کے اواخر میں اونچی کیاریوں میں لگا دیا جاتا ہے۔ پودے نکلنے کی شرح14 to 70 % تک ہوتی ہے۔اور 30 to 35 دن میںپودے پھوُٹناشروع ہو جاتے ہیں۔(ii) غیر جنسی طریقہ :۔اچھے جوان درخت کی جوان قدرے لمبی قلموں کو seradix B3 کے ساتھ ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ اور قدرے گیلی اوپر درج شدہ مٹی کی اونچی کیاریوں میں لگا دیتے ہیں۔ یہ تجربہ مارچ کے ماہ میں موزوں رہتا ہے۔ جب پنیری5 cm ہو جاتی ہے۔ اُسے مٹّی بھرے پولی تھین کے لفافوں میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ پھر جولائی اگست میں pits میں شفٹ کر دیتے ہیں۔ جن کی اطراف30 cm کی ہوتی ہیں۔
جگہ کا انتخاب:گہری ریتلی مَیرا زمین جو کہ گرینائٹ اور ایسی ہی جگہوں سے حاصل کی گئی ہو۔ اور اُس میں کچھ ریت شامل کی گئی ہو۔اور کچھ نمی داخل کی گئی ہو٬اس قسم کے درخت کے پودے کو اُگانے کے لیے انتہائی مفید رہتی ہے۔
نمایاں خصوصیات:بہت سے پرندوں کے ساتھ، مقامی جنگلات کی زندگی اور شہد کی مکھیوں کے لئے بہت پرکشش ۔
شاخ تراشی:
بیماریاں:
 لکڑی نرم ہونے کی وجہ سے انتہائی مفید ہے۔ پانی کے اندر استعمال ک لیے پائیدار۔ کہیں بھی دوسرے سے پانی کے نیچے ہے۔ تعمیر کا کام میں مقبول ہے، لیکن پلا ئی ود، ماچس اور کلیوں کی تیاری کے لیے بہت اچھا اور قیمتی ہے۔ سانچے، کشتیاں ، یا دیگر ڈھانچے ۔
اس کے مضبوط تنے کی لکڑ ی ٹمبرکے لئے مفید ہے۔ اس کی لکڑی بہت نر م ہونے کی وجہ سے بہت مفید ہے. ، لیکن پائیدار نہیں۔ کہیں بھی دیگر پانی کے تحت سے. تو اس کی تعمیر کے کام کے لئے مقبول ہے، کشتیاں اور یا پانی میںاستعمال کے ضروری ڈھانچے کو بنانے کے لئے بہت اچھا ہے۔ پلائیووڈ، میچ باکس اور لاٹھی، سانچوں، کی تیاری کے لئے قیمتی ہے۔
 پھول 6 سے 7 انچ طویل ہیں اور 7 انچ وسیع ہیں. وہ شاخوں کے سروں پر یا اس کے قریب اکیلے یا گروپ میں ہیں. پھول پانچ ، سرخ رنگ، یا کبھی کبھی سفید پنکھڑیوں پر مشتمل ہوتے ہیں.
 پھل، ساخت ایک گیند کی طرح . یہ کپاس کی طرح روئی دار سامان سے بھرے ہیں. یہ پھل پکایا ، کھایا اور اس سے اچار بھی بنایا جاتا ہے۔روئی تکیے، صوفے، اور سرہانے کے بھرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے.
 جڑیں اسہال، پیچش، menorrhagia، کسیلا کے علاج میں اور زخموں کے لئے استعمال کی جاتی ہےں. گوند پیچش، hemoptysis، پلمونری تپ دق، انفلوئنزا، جلن، menorrhagia اور انتررکپ میں مفید ہے. بارک زخموں کی شفا یابی اور خون کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. پھول کسیلی اور جلد کی مشکلات اور haemorrhoids کے لئے اچھے ہیں. بیج سوزاک اور دائمی cystitis کے علاج میں مفید ہیں۔پھل calculus affections ، دائمی سوزش اور مثانے اور گردے کے السر میں مفید ہیں.
بیج زہریلا ہوتا ہے۔
اس کے بیج سوزاک اور اندرونی پرانی پیشاب کی نالی کی سوزش ے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس کی نرم لکڑی ماچس کی تیلیاں بنانے کے کام آتی ہے۔ اور اس کی پھل کی روئی تکیوں اور گدیلوں کی بھرائی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
پیداوار :  بڑی تیز بڑھوتری ، اوسط MAI   35cm کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ
لکڑی کی خصوصیات
دانہ : سیدھا ،
رنگ : سفید ی مائل


کثا فت : بہت ہلکا ۔ کلوریز کی مقدار 4900کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی : کمزور
استعمال:۔ اس کی جڑیں پیچش٬انفلوئینز٬اندونی جلن کے احساس٬اندونی خون کا بہنا٬خون کی صفائی جیسے امراض کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔bark(اندرونی لکڑی)زخموں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس شے کا پیسٹ بنا کر بیرونی بڑے کٹ والے زخموں کو بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ bark ایک گوند خارج کرتی ہے۔ جسے موچرس کہتے ہیں۔ جو اندرون معدہ کو ملیّن کرتی ہے٬جراثیم کش ہوتی ہے۔ اور پیچش اور انفلوئینزا کے لیے مفید ہوتی ہے۔کانٹوں سے بھی ایک پیسٹ کریم تیار کی جاتی ہے۔ جو جلد خاص طور پر چہرے کا رنگ بحال کرتی ہے۔
پھول بھی جلد کی تکالیف کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پھل بھی اندرونی جلن اور گردے و مثانے کی اندرونی جلن کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
سیمل
تعارف: سیمل گرم مگر بارش والے علاقوں میں پیدا ہو تا ہے۔لیکن مرطوب استوائی آب و ہوا میں یہ زیادہ بہتر طور پر اگتا اور بڑھتا ہے ۔پہاڑی علاقوں میں یہ9سو سے 12سو میٹر یا اس سے زائد بلندی پر بھی پایا جاتا ہے۔لیکن سیمل کا طبعی مسکن ایسے علاقے ہیں جہاں کا درجہ حرارت(سایہ میں)زیادہ سے زیادہ 95فارن ہایئٹ سے120فارن ہائیٹ تک ہو اور سالانہ بارشیں عام طور پر7500سینٹی میٹر یا اس سے زائد ہو۔
یہ 40میٹر تک بلندی والا درخت ہے جس کے پتے موسم خزاں میں جھڑ جاتے ہیں اس کا تنا سیدھا سلنڈر نماہو تا ہے۔اس کی شاخیں جو ایک دائرے میں پھوٹتی ہیں۔ افقی انداز میں چاروں طرف پھیلی ہوتی ہیں۔بڑے درخت کا نچلا حصہ فطری طور پر کف دار ہو تا ہے ۔سیمل کی چھال ہموار خاکستری رنگ کی موٹی ہوتی ہے۔نو عمر درخت اور شاخیں مخروطی کانٹوں سے بھری ہوتی ہیں۔اس کے پتے پانچ سے سات چھوٹے چھوٹے پتوں میں منقسم ہوتے ہیں۔سیمل کے درخت کا گھراو ¿ کافی بڑا ہو تا ہے۔کف دار حصے سے اوپر اس کے تنے کا لپیٹ 3.5میٹر تک ہو تا ہے۔سیمل جب عام جنگلاتی ماحول میں پروان چڑھتا ہے تو اس کی نچلی شاخیں جلد ہی گر جاتی ہیںیوں اس کا سیدھا اور صاف تنا24سے30میٹر تک لمبا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات ،خصوصاََ ایسے علاقوں میں جو خشک ہوں،سیمل کے پتے دسمبر کے آغاز میں نکلتے ہیں اور کچھ عرصے میں زرد ہو کر گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔دسمبر کے آخر تک سارے پتے جھڑ جاتے ہیں۔بعض درخت ،خصوصاََجو مرطوب علاقوں میں ہوں،مارچ تک پتوں سے لدے رہتے ہیں۔نئے پتے مارچ یا اپریل میں نکلتے ہیں۔اس کی بڑی بڑی ،گول،بھورے رنگ کی کلیاں دسمبر میں ہی نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔جنوری اور فروری میں گہرے سرخ پھول کھلتے ہیں جو بعض اوقات مارچ تک اپنی بہار دکھاتے ہیں۔سیمل کا پھل بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔یہ لمبوترا مگر بیضوی،سخت10سے15سینٹی میٹر لمبا اور پانچ خانوں والا ہوتا ہے۔اپریل اور مئی میں پکتا ہے سیمل کا پھل ابھی درخت کے ساتھ ہی لگا ہو تا ہے کہ پک کر کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔بعض اوقات یہ زمین پر گرنے کے بعد ہی کھلتا ہے ۔سیمل کے پھل میں کافی تعداد میں بیج ہوتے ہیں جو سفید ریشمی بالوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔چنانچہ انہیں تیز ہوا آسانی سے اڑا کر دور دور تک لے جاتی ہے۔جن دنوں سیمل کا پھل پکتا ہے فضا ریشمی بالوں سے اٹی رہتی ہے یہ بال میلوں دور تک اڑتے ہیں۔سیمل کے بیج روغنی ہوتے ہیں اگر ان کو احتیاط سے ذخیرہ کیا جائے تو ان کی قوت نمو کچھ عرصہ قائم رہ سکتی ہے۔سیمل کے بیج زمین پر اکٹھے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن بہتر یہ ہے کہ سیمل سے اس وقت پھل اتار لیا جائے جب وہ پک کر کھلنے کے بالکل قریب ہو۔پھل کو دھوپ میں ڈال دیا جائے۔تو وہ جلد ہی پھٹ جاتا ہے سیمل کی روئی سے بیجوں کو الگ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے بیجوں کو روئی سمیت بڑی سی بالٹی میں ڈال دیا جائے۔اور پھر دونوں ہاتھوں سے ایک مدھانی کو تیزی سے بالٹی میں چلائیں اس طرح بیج سیمل کی روئی سے الگ ہو کر نیچے جمع ہو جائیںگے۔
عادات واطوار: سیمل کے درخت کو زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ معمولی کہر کا تو مقابلہ کر سکتا ہے ۔مگر زیادہ کہر سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔سیمل کا پودا اگر ایک مرتبہ اچھی طرح جڑ پکڑ لے تو اس کی چھال اسے آگ سے کافی حد محفوظ رکھتی ہے ۔اگر اوائل عمر میں سیمل کے پودے کو سطح زمین سے کاٹ دیا جائے تو دوبارہ اس کی شاخیں نکل آتی ہیں۔لیکن زیادہ عمر ہونے کی صورت میں اس کی (Coppice)کی اہلیت کم ہو جاتی ہے۔اس کی جڑ زخمی ہو جائے تو یہ وہاں سے دوبارہ پھوٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
نرسری کی تیاری: عموماََ محکمہ جنگلات یا فارمزنرسری سے سیمل کی قلمیں آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں اور یہی قلمیںعوام کی ضروریات پو را کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیںتا ہم بیج سے اس کے پودے تیار کرنا خاصا آسان ہے۔اور زمیندار بھی اپنی ضرورت کے مطابق محدود پیمانے پر اس کی نرسری تیار کر سکتے ہیں۔سب سے پہلے اس چیز پر توجہ دینی چاہیے کہ بونے کے لئے استعمال کیا جانے والا بیج بھی پختہ بھی ہو اور تازہ نھی ہو کیونکہ ملا جلا بیج استعمال کرنے سے ناصرف پودوں کی کم تعداد حاصل ہو گی بلکہ کیاریوں میں جگہ پوری طرح سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں اور گھاس پھوس کی بڑھت زیادہ ہو گی۔اس مقصد کے لئے بیج کو پھٹک کر کھوکھلے اور سکڑے ہوئے بیج الگ کر لئے جائیں اوراس بات کا یقین کر لیا جائے کہ بیج ایک سال سے پرانا نہ ہو۔بہتریہی ہے کہ مئی میںاکٹھا کیا گیا بیج اسی سال نرسری میں استعمال کر لیا جائے۔سیمل کی نرسری لگانے سے پیشتر زمین کو ہل چلا کر تیار کیا جائے اس میں گوبر کی کھاد اور نہر کی بھل بھی ڈال لی جائے تو بہتر ہو گا۔اس کے بعد زمین کو کراہ سے ہموار کر کے ڈیڑھ فٹ چوڑی وٹیں بنائی جائیں جن کے درمیان آبپاشی کے لئے نالیاں موجود ہوں۔سیمل کا بیج پوری وٹوں کے کناروں پر قطار کی صورت میں ڈال دیا جائے۔نالیوں میںآبپاشی اس طریقے سے کرنی چاہیے کہ بیج والی مٹی نم رہے۔وٹوں کے کناروں پر لگائے گئے بیج تقریباََ سات سو یوم بعد اگ آتے ہیں۔جون میں اچھی زمین پر لگائی نرسری کے پودے آنے والے موسم برسات میں ہی شجرکاری کے لئے کام آسکتے ہیںاگر انہیں کہر سے بچایا جائے۔
پودا جات لگانے کا طریقہ: سیمل کی شجرکاری دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔سیمل لگانے کا معیاری طریقہ قلموں سے ہی ہے۔بہر حال پوراپودا بھی جڑوں سمیت اکھاڑ کر گڑھے میں لگایا جاسکتا ہے۔اگر پودے سے قلمیں بنانی مقصود ہوں تو شاخ کا 8سینٹی میٹر حصہ اور جڑکے22سینٹی میٹر حصہ کو کاٹ کر بنائی جاسکتی ہیں۔یہ قلم جسکی کل لمبائی30سینٹی میٹر اور موٹائی تقریباََ2سینٹی میٹر ہو گی۔22سینٹی میٹر گہرے سوراخ میں جو نمدار مٹی میں لوہے کی سلاخ سے بنایا جاتا ہے لگائی جاتی ہے قلم زمین میں لگانے کے بعد سوراخ کے گردکی مٹی دبادی جاتی ہے۔سیمل نہری زمینوں میں سے پانی کے کھالوں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ لگایا جاتا ہے پودوں یا قلموں کا درمیانی فاصلہ مناسب رکھنا چاہیے کیونکہ سیمل تیز بڑھت کرنے والے درخت ہیں۔اور بہت قریب لگانا فائدہ مند ثابت نہ ہو گا دو قلموں کا درمیانی فاصلہ عموماََ4میٹر رکھا جاتا ہے نہری علاقوں میں سیمل کی بڑھت خاصی تیز ہو تی ہےاور خصوصاََ نرم اور گہری زمین بہتر رہتی ہے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سیمل کے پودے کی بڑھت پہلے سال نسبتاََ کم ہو تی ہے اور عمر کے ساتھ اس کی بڑھت میں تیزی آجاتی ہے۔ماہ جون سے اگست تک بڑھنے کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔سخت زمین سیمل کی نشو ونما پر خاصا منفی اثر ڈالتی ہے۔سیمل کی فصل کو کہر کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں کہر پڑتا ہے یہ پودا زمین کی سطح تک مر جاتا ہے مگر اس میںگھبرانے کی بات نہیںہے کیونکہ آنے والے بہار کے موسم میں اس پودے کے مڈھ سے نئی شاخیں نکل آئیں گی۔اس سلسلے میں بہتر یہ ہو گا کہ جون میں لگائی گئی نرسری کے پودے موسم بہار میں لگائے جائیں جن کے نتائج بہتر ہوں گے۔اگر قلم کی بجائے نرسری کے پودے لگانے مقصود ہوں تو یہ مارچ کے مہینے میں لگانے چاہیئں جب ان پودوں پر پتے نہ ہوں مگر اس بات کا یقین کر لیجئے کہ پودے کو پانی باقاعدگی سے ملتا رہے تا کہ مٹی نم رہے۔
افزائش:
پودایا قلم لگانے کے بعد اس کی نگہداشت کا وقت آتا ہے ۔پانی ہر پودے کی ضرورت ہو تی ہے ۔مگر پانی اس قدر نہ دیا جائے جو زمین پر کھڑا رہے۔اس سے پودا مرجانے کا خدشہ ہو تا ہے ۔اس بات کا تعین کر لیں کہ مٹی نم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیم زدہ زمین پر سیمل کی کاشت ممکن نہیں اگر سیمل برسات میں لگایا گیا ہے تو پہلی بارش کے بعد پودے یا قلم کے اردگرداگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کر دیںتاکہ پودا اپنی صحیح نشوونماپانے اورسورج کی روشنی پودے تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچے ۔جڑی بوٹیوں کی تلفی مناسب وقت کے بعد کرتے رہنا چاہیے۔تاکہ پودا اتنا بڑا ہو جائے کہ اسے ان جڑی بوٹیوں نقصان نہ پہنچے۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایسی جگہ جڑی،بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے پودے کی بڑھت عام زمین سے دو گنی ہوتی ہے۔اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ اس پودے پر جس کے اردگرد جڑی بوٹیاں نہ ہوں کہر کا اثر بھی کم ہو تا ہے۔قدرتی طور پر سیمل کو شاخ تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ درمیان والے تنے کے گرد ایک چکر کی صورت میں نکلنے والی نچلی شاخیں ایک ہی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کے بعد خودبخود خشک ہو جاتی ہیں۔یوں بھی کسی قسم کے درخت کے لئے بلاضرورت شاخ تراشی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کا بڑا بُرا اثر پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ بے احتیاطی سے کی ہوئی شاخ تراشی پودوں پر کیڑوں،بیماریوں کے حملے کا باعث بن سکتی ہے۔البتہ وہ پودے جو کہ دو یا دو سے زیادہ سیدھے بڑھنے والے تنے پیدا کر دیں ان میں سب سے سیدھے تنے کو بچا کرموسم سرما میں باقی تینوں کو کسی تیز دھار آلے سے کاٹ دیا چاہیے۔پودے کوShoot borer سے بچانے کے لئے اسے صحت مند رکھنا ضروری ہے۔
استعمالات: سیمل کی لکڑی کمرشل پلائی وینئیر(Veneer)دروازے،ماچس کی تیلیاں،جوتوں کی ایڑیاں اور کریٹ بنانے کے کام آتی ہے۔سیمل کا ریشہ تکیوں کے بھرنے کے کام آتا ہے۔چھال کے اندرونی حصہ کے ریشوں کے رسے بنائے جاتے ہیں۔سیمل کی جڑوں میں پروٹین،دوسری جڑوں والی زرعی فصلوں کے برابر ہوتی ہے البتہ کیلیشم مقابلتاََ زیادہ ہوتا ہے۔سیمل کی جڑیں ادویاتی تاثیرکی بھی حامل ہوتی ہیں،پھول اور پتے چارہ کے کام آتے ہیںمثال کے طور پر خرگوش سیمل کے نومولود تنے شوق سے کھاتے ہیںچوہے،سور اور خارپشت اس کی جڑوں کو کھانا پسند کرتے ہیں۔لکڑی کا اوسط وزن5200گرام فی کیوبک سینٹی میٹر اور حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت4900کلوکیلوری فی کلو گرام ہے۔
معاشیات: سیمل عام طور پر کھالوں اور راستوں کے کنارے پر لگائے جاتے ہیں۔جہاں پر ان کی بڑھت خاصی بہتر ہوتی ہے۔قطاروںکی صورت میں لگائے گئے سیمل تقریباََ دس سال کی عمر میں فی درخت ایک ہزار روپے سے پندرہ سو روپے مالیت کے ہو جاتے ہیںسیمل کو زرعی شجرکاری میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اسے15فٹ15x فٹ کے فاصلے پر لگا کر درمیانی رقبہ میں دو تین سال تک مختلف اقسام کی زرعی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔اس رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
سیمل
تعارف: سیمل گرم مگر بارش والے علاقوں میں پیدا ہو تا ہے۔لیکن مرطوب استوائی آب و ہوا میں یہ زیادہ بہتر طور پر اگتا اور بڑھتا ہے ۔پہاڑی علاقوں میں یہ9سو سے 12سو میٹر یا اس سے زائد بلندی پر بھی پایا جاتا ہے۔لیکن سیمل کا طبعی مسکن ایسے علاقے ہیں جہاں کا درجہ حرارت(سایہ میں)زیادہ سے زیادہ 95فارن ہایئٹ سے120فارن ہائیٹ تک ہو اور سالانہ بارشیں عام طور پر7500سینٹی میٹر یا اس سے زائد ہو۔
یہ 40میٹر تک بلندی والا درخت ہے جس کے پتے موسم خزاں میں جھڑ جاتے ہیں اس کا تنا سیدھا سلنڈر نماہو تا ہے۔اس کی شاخیں جو ایک دائرے میں پھوٹتی ہیں۔ افقی انداز میں چاروں طرف پھیلی ہوتی ہیں۔بڑے درخت کا نچلا حصہ فطری طور پر کف دار ہو تا ہے ۔سیمل کی چھال ہموار خاکستری رنگ کی موٹی ہوتی ہے۔نو عمر درخت اور شاخیں مخروطی کانٹوں سے بھری ہوتی ہیں۔اس کے پتے پانچ سے سات چھوٹے چھوٹے پتوں میں منقسم ہوتے ہیں۔سیمل کے درخت کا گھراو ¿ کافی بڑا ہو تا ہے۔کف دار حصے سے اوپر اس کے تنے کا لپیٹ 3.5میٹر تک ہو تا ہے۔سیمل جب عام جنگلاتی ماحول میں پروان چڑھتا ہے تو اس کی نچلی شاخیں جلد ہی گر جاتی ہیںیوں اس کا سیدھا اور صاف تنا24سے30میٹر تک لمبا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات ،خصوصاََ ایسے علاقوں میں جو خشک ہوں،سیمل کے پتے دسمبر کے آغاز میں نکلتے ہیں اور کچھ عرصے میں زرد ہو کر گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔دسمبر کے آخر تک سارے پتے جھڑ جاتے ہیں۔بعض درخت ،خصوصاََجو مرطوب علاقوں میں ہوں،مارچ تک پتوں سے لدے رہتے ہیں۔نئے پتے مارچ یا اپریل میں نکلتے ہیں۔اس کی بڑی بڑی ،گول،بھورے رنگ کی کلیاں دسمبر میں ہی نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔جنوری اور فروری میں گہرے سرخ پھول کھلتے ہیں جو بعض اوقات مارچ تک اپنی بہار دکھاتے ہیں۔سیمل کا پھل بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔یہ لمبوترا مگر بیضوی،سخت10سے15سینٹی میٹر لمبا اور پانچ خانوں والا ہوتا ہے۔اپریل اور مئی میں پکتا ہے سیمل کا پھل ابھی درخت کے ساتھ ہی لگا ہو تا ہے کہ پک کر کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔بعض اوقات یہ زمین پر گرنے کے بعد ہی کھلتا ہے ۔سیمل کے پھل میں کافی تعداد میں بیج ہوتے ہیں جو سفید ریشمی بالوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔چنانچہ انہیں تیز ہوا آسانی سے اڑا کر دور دور تک لے جاتی ہے۔جن دنوں سیمل کا پھل پکتا ہے فضا ریشمی بالوں سے اٹی رہتی ہے یہ بال میلوں دور تک اڑتے ہیں۔سیمل کے بیج روغنی ہوتے ہیں اگر ان کو احتیاط سے ذخیرہ کیا جائے تو ان کی قوت نمو کچھ عرصہ قائم رہ سکتی ہے۔سیمل کے بیج زمین پر اکٹھے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن بہتر یہ ہے کہ سیمل سے اس وقت پھل اتار لیا جائے جب وہ پک کر کھلنے کے بالکل قریب ہو۔پھل کو دھوپ میں ڈال دیا جائے۔تو وہ جلد ہی پھٹ جاتا ہے سیمل کی روئی سے بیجوں کو الگ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے بیجوں کو روئی سمیت بڑی سی بالٹی میں ڈال دیا جائے۔اور پھر دونوں ہاتھوں سے ایک مدھانی کو تیزی سے بالٹی میں چلائیں اس طرح بیج سیمل کی روئی سے الگ ہو کر نیچے جمع ہو جائیںگے۔
عادات واطوار: سیمل کے درخت کو زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ معمولی کہر کا تو مقابلہ کر سکتا ہے ۔مگر زیادہ کہر سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔سیمل کا پودا اگر ایک مرتبہ اچھی طرح جڑ پکڑ لے تو اس کی چھال اسے آگ سے کافی حد محفوظ رکھتی ہے ۔اگر اوائل عمر میں سیمل کے پودے کو سطح زمین سے کاٹ دیا جائے تو دوبارہ اس کی شاخیں نکل آتی ہیں۔لیکن زیادہ عمر ہونے کی صورت میں اس کی (Coppice)کی اہلیت کم ہو جاتی ہے۔اس کی جڑ زخمی ہو جائے تو یہ وہاں سے دوبارہ پھوٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
نرسری کی تیاری: عموماََ محکمہ جنگلات یا فارمزنرسری سے سیمل کی قلمیں آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں اور یہی قلمیںعوام کی ضروریات پو را کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیںتا ہم بیج سے اس کے پودے تیار کرنا خاصا آسان ہے۔اور زمیندار بھی اپنی ضرورت کے مطابق محدود پیمانے پر اس کی نرسری تیار کر سکتے ہیں۔سب سے پہلے اس چیز پر توجہ دینی چاہیے کہ بونے کے لئے استعمال کیا جانے والا بیج بھی پختہ بھی ہو اور تازہ نھی ہو کیونکہ ملا جلا بیج استعمال کرنے سے ناصرف پودوں کی کم تعداد حاصل ہو گی بلکہ کیاریوں میں جگہ پوری طرح سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں اور گھاس پھوس کی بڑھت زیادہ ہو گی۔اس مقصد کے لئے بیج کو پھٹک کر کھوکھلے اور سکڑے ہوئے بیج الگ کر لئے جائیں اوراس بات کا یقین کر لیا جائے کہ بیج ایک سال سے پرانا نہ ہو۔بہتریہی ہے کہ مئی میںاکٹھا کیا گیا بیج اسی سال نرسری میں استعمال کر لیا جائے۔سیمل کی نرسری لگانے سے پیشتر زمین کو ہل چلا کر تیار کیا جائے اس میں گوبر کی کھاد اور نہر کی بھل بھی ڈال لی جائے تو بہتر ہو گا۔اس کے بعد زمین کو کراہ سے ہموار کر کے ڈیڑھ فٹ چوڑی وٹیں بنائی جائیں جن کے درمیان آبپاشی کے لئے نالیاں موجود ہوں۔سیمل کا بیج پوری وٹوں کے کناروں پر قطار کی صورت میں ڈال دیا جائے۔نالیوں میںآبپاشی اس طریقے سے کرنی چاہیے کہ بیج والی مٹی نم رہے۔وٹوں کے کناروں پر لگائے گئے بیج تقریباََ سات سو یوم بعد اگ آتے ہیں۔جون میں اچھی زمین پر لگائی نرسری کے پودے آنے والے موسم برسات میں ہی شجرکاری کے لئے کام آسکتے ہیںاگر انہیں کہر سے بچایا جائے۔
پودا جات لگانے کا طریقہ: سیمل کی شجرکاری دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔سیمل لگانے کا معیاری طریقہ قلموں سے ہی ہے۔بہر حال پوراپودا بھی جڑوں سمیت اکھاڑ کر گڑھے میں لگایا جاسکتا ہے۔اگر پودے سے قلمیں بنانی مقصود ہوں تو شاخ کا 8سینٹی میٹر حصہ اور جڑکے22سینٹی میٹر حصہ کو کاٹ کر بنائی جاسکتی ہیں۔یہ قلم جسکی کل لمبائی30سینٹی میٹر اور موٹائی تقریباََ2سینٹی میٹر ہو گی۔22سینٹی میٹر گہرے سوراخ میں جو نمدار مٹی میں لوہے کی سلاخ سے بنایا جاتا ہے لگائی جاتی ہے قلم زمین میں لگانے کے بعد سوراخ کے گردکی مٹی دبادی جاتی ہے۔سیمل نہری زمینوں میں سے پانی کے کھالوں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ لگایا جاتا ہے پودوں یا قلموں کا درمیانی فاصلہ مناسب رکھنا چاہیے کیونکہ سیمل تیز بڑھت کرنے والے درخت ہیں۔اور بہت قریب لگانا فائدہ مند ثابت نہ ہو گا دو قلموں کا درمیانی فاصلہ عموماََ4میٹر رکھا جاتا ہے نہری علاقوں میں سیمل کی بڑھت خاصی تیز ہو تی ہےاور خصوصاََ نرم اور گہری زمین بہتر رہتی ہے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سیمل کے پودے کی بڑھت پہلے سال نسبتاََ کم ہو تی ہے اور عمر کے ساتھ اس کی بڑھت میں تیزی آجاتی ہے۔ماہ جون سے اگست تک بڑھنے کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔سخت زمین سیمل کی نشو ونما پر خاصا منفی اثر ڈالتی ہے۔سیمل کی فصل کو کہر کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں کہر پڑتا ہے یہ پودا زمین کی سطح تک مر جاتا ہے مگر اس میںگھبرانے کی بات نہیںہے کیونکہ آنے والے بہار کے موسم میں اس پودے کے مڈھ سے نئی شاخیں نکل آئیں گی۔اس سلسلے میں بہتر یہ ہو گا کہ جون میں لگائی گئی نرسری کے پودے موسم بہار میں لگائے جائیں جن کے نتائج بہتر ہوں گے۔اگر قلم کی بجائے نرسری کے پودے لگانے مقصود ہوں تو یہ مارچ کے مہینے میں لگانے چاہیئں جب ان پودوں پر پتے نہ ہوں مگر اس بات کا یقین کر لیجئے کہ پودے کو پانی باقاعدگی سے ملتا رہے تا کہ مٹی نم رہے۔
افزائش:
پودایا قلم لگانے کے بعد اس کی نگہداشت کا وقت آتا ہے ۔پانی ہر پودے کی ضرورت ہو تی ہے ۔مگر پانی اس قدر نہ دیا جائے جو زمین پر کھڑا رہے۔اس سے پودا مرجانے کا خدشہ ہو تا ہے ۔اس بات کا تعین کر لیں کہ مٹی نم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیم زدہ زمین پر سیمل کی کاشت ممکن نہیں اگر سیمل برسات میں لگایا گیا ہے تو پہلی بارش کے بعد پودے یا قلم کے اردگرداگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کر دیںتاکہ پودا اپنی صحیح نشوونماپانے اورسورج کی روشنی پودے تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچے ۔جڑی بوٹیوں کی تلفی مناسب وقت کے بعد کرتے رہنا چاہیے۔تاکہ پودا اتنا بڑا ہو جائے کہ اسے ان جڑی بوٹیوں نقصان نہ پہنچے۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایسی جگہ جڑی،بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے پودے کی بڑھت عام زمین سے دو گنی ہوتی ہے۔اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ اس پودے پر جس کے اردگرد جڑی بوٹیاں نہ ہوں کہر کا اثر بھی کم ہو تا ہے۔قدرتی طور پر سیمل کو شاخ تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ درمیان والے تنے کے گرد ایک چکر کی صورت میں نکلنے والی نچلی شاخیں ایک ہی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کے بعد خودبخود خشک ہو جاتی ہیں۔یوں بھی کسی قسم کے درخت کے لئے بلاضرورت شاخ تراشی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کا بڑا بُرا اثر پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ بے احتیاطی سے کی ہوئی شاخ تراشی پودوں پر کیڑوں،بیماریوں کے حملے کا باعث بن سکتی ہے۔البتہ وہ پودے جو کہ دو یا دو سے زیادہ سیدھے بڑھنے والے تنے پیدا کر دیں ان میں سب سے سیدھے تنے کو بچا کرموسم سرما میں باقی تینوں کو کسی تیز دھار آلے سے کاٹ دیا چاہیے۔پودے کوShoot borer سے بچانے کے لئے اسے صحت مند رکھنا ضروری ہے۔
استعمالات: سیمل کی لکڑی کمرشل پلائی وینئیر(Veneer)دروازے،ماچس کی تیلیاں،جوتوں کی ایڑیاں اور کریٹ بنانے کے کام آتی ہے۔سیمل کا ریشہ تکیوں کے بھرنے کے کام آتا ہے۔چھال کے اندرونی حصہ کے ریشوں کے رسے بنائے جاتے ہیں۔سیمل کی جڑوں میں پروٹین،دوسری جڑوں والی زرعی فصلوں کے برابر ہوتی ہے البتہ کیلیشم مقابلتاََ زیادہ ہوتا ہے۔سیمل کی جڑیں ادویاتی تاثیرکی بھی حامل ہوتی ہیں،پھول اور پتے چارہ کے کام آتے ہیںمثال کے طور پر خرگوش سیمل کے نومولود تنے شوق سے کھاتے ہیںچوہے،سور اور خارپشت اس کی جڑوں کو کھانا پسند کرتے ہیں۔لکڑی کا اوسط وزن5200گرام فی کیوبک سینٹی میٹر اور حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت4900کلوکیلوری فی کلو گرام ہے۔
معاشیات: سیمل عام طور پر کھالوں اور راستوں کے کنارے پر لگائے جاتے ہیں۔جہاں پر ان کی بڑھت خاصی بہتر ہوتی ہے۔قطاروںکی صورت میں لگائے گئے سیمل تقریباََ دس سال کی عمر میں فی درخت ایک ہزار روپے سے پندرہ سو روپے مالیت کے ہو جاتے ہیںسیمل کو زرعی شجرکاری میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اسے15فٹ15x فٹ کے فاصلے پر لگا کر درمیانی رقبہ میں دو تین سال تک مختلف اقسام کی زرعی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔اس رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
سیمل
تعارف: سیمل گرم مگر بارش والے علاقوں میں پیدا ہو تا ہے۔لیکن مرطوب استوائی آب و ہوا میں یہ زیادہ بہتر طور پر اگتا اور بڑھتا ہے ۔پہاڑی علاقوں میں یہ9سو سے 12سو میٹر یا اس سے زائد بلندی پر بھی پایا جاتا ہے۔لیکن سیمل کا طبعی مسکن ایسے علاقے ہیں جہاں کا درجہ حرارت(سایہ میں)زیادہ سے زیادہ 95فارن ہایئٹ سے120فارن ہائیٹ تک ہو اور سالانہ بارشیں عام طور پر7500سینٹی میٹر یا اس سے زائد ہو۔
یہ 40میٹر تک بلندی والا درخت ہے جس کے پتے موسم خزاں میں جھڑ جاتے ہیں اس کا تنا سیدھا سلنڈر نماہو تا ہے۔اس کی شاخیں جو ایک دائرے میں پھوٹتی ہیں۔ افقی انداز میں چاروں طرف پھیلی ہوتی ہیں۔بڑے درخت کا نچلا حصہ فطری طور پر کف دار ہو تا ہے ۔سیمل کی چھال ہموار خاکستری رنگ کی موٹی ہوتی ہے۔نو عمر درخت اور شاخیں مخروطی کانٹوں سے بھری ہوتی ہیں۔اس کے پتے پانچ سے سات چھوٹے چھوٹے پتوں میں منقسم ہوتے ہیں۔سیمل کے درخت کا گھراو ¿ کافی بڑا ہو تا ہے۔کف دار حصے سے اوپر اس کے تنے کا لپیٹ 3.5میٹر تک ہو تا ہے۔سیمل جب عام جنگلاتی ماحول میں پروان چڑھتا ہے تو اس کی نچلی شاخیں جلد ہی گر جاتی ہیںیوں اس کا سیدھا اور صاف تنا24سے30میٹر تک لمبا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات ،خصوصاََ ایسے علاقوں میں جو خشک ہوں،سیمل کے پتے دسمبر کے آغاز میں نکلتے ہیں اور کچھ عرصے میں زرد ہو کر گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔دسمبر کے آخر تک سارے پتے جھڑ جاتے ہیں۔بعض درخت ،خصوصاََجو مرطوب علاقوں میں ہوں،مارچ تک پتوں سے لدے رہتے ہیں۔نئے پتے مارچ یا اپریل میں نکلتے ہیں۔اس کی بڑی بڑی ،گول،بھورے رنگ کی کلیاں دسمبر میں ہی نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔جنوری اور فروری میں گہرے سرخ پھول کھلتے ہیں جو بعض اوقات مارچ تک اپنی بہار دکھاتے ہیں۔سیمل کا پھل بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔یہ لمبوترا مگر بیضوی،سخت10سے15سینٹی میٹر لمبا اور پانچ خانوں والا ہوتا ہے۔اپریل اور مئی میں پکتا ہے سیمل کا پھل ابھی درخت کے ساتھ ہی لگا ہو تا ہے کہ پک کر کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔بعض اوقات یہ زمین پر گرنے کے بعد ہی کھلتا ہے ۔سیمل کے پھل میں کافی تعداد میں بیج ہوتے ہیں جو سفید ریشمی بالوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔چنانچہ انہیں تیز ہوا آسانی سے اڑا کر دور دور تک لے جاتی ہے۔جن دنوں سیمل کا پھل پکتا ہے فضا ریشمی بالوں سے اٹی رہتی ہے یہ بال میلوں دور تک اڑتے ہیں۔سیمل کے بیج روغنی ہوتے ہیں اگر ان کو احتیاط سے ذخیرہ کیا جائے تو ان کی قوت نمو کچھ عرصہ قائم رہ سکتی ہے۔سیمل کے بیج زمین پر اکٹھے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن بہتر یہ ہے کہ سیمل سے اس وقت پھل اتار لیا جائے جب وہ پک کر کھلنے کے بالکل قریب ہو۔پھل کو دھوپ میں ڈال دیا جائے۔تو وہ جلد ہی پھٹ جاتا ہے سیمل کی روئی سے بیجوں کو الگ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے بیجوں کو روئی سمیت بڑی سی بالٹی میں ڈال دیا جائے۔اور پھر دونوں ہاتھوں سے ایک مدھانی کو تیزی سے بالٹی میں چلائیں اس طرح بیج سیمل کی روئی سے الگ ہو کر نیچے جمع ہو جائیںگے۔
عادات واطوار: سیمل کے درخت کو زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ معمولی کہر کا تو مقابلہ کر سکتا ہے ۔مگر زیادہ کہر سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔سیمل کا پودا اگر ایک مرتبہ اچھی طرح جڑ پکڑ لے تو اس کی چھال اسے آگ سے کافی حد محفوظ رکھتی ہے ۔اگر اوائل عمر میں سیمل کے پودے کو سطح زمین سے کاٹ دیا جائے تو دوبارہ اس کی شاخیں نکل آتی ہیں۔لیکن زیادہ عمر ہونے کی صورت میں اس کی (Coppice)کی اہلیت کم ہو جاتی ہے۔اس کی جڑ زخمی ہو جائے تو یہ وہاں سے دوبارہ پھوٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
نرسری کی تیاری: عموماََ محکمہ جنگلات یا فارمزنرسری سے سیمل کی قلمیں آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں اور یہی قلمیںعوام کی ضروریات پو را کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیںتا ہم بیج سے اس کے پودے تیار کرنا خاصا آسان ہے۔اور زمیندار بھی اپنی ضرورت کے مطابق محدود پیمانے پر اس کی نرسری تیار کر سکتے ہیں۔سب سے پہلے اس چیز پر توجہ دینی چاہیے کہ بونے کے لئے استعمال کیا جانے والا بیج بھی پختہ بھی ہو اور تازہ نھی ہو کیونکہ ملا جلا بیج استعمال کرنے سے ناصرف پودوں کی کم تعداد حاصل ہو گی بلکہ کیاریوں میں جگہ پوری طرح سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں اور گھاس پھوس کی بڑھت زیادہ ہو گی۔اس مقصد کے لئے بیج کو پھٹک کر کھوکھلے اور سکڑے ہوئے بیج الگ کر لئے جائیں اوراس بات کا یقین کر لیا جائے کہ بیج ایک سال سے پرانا نہ ہو۔بہتریہی ہے کہ مئی میںاکٹھا کیا گیا بیج اسی سال نرسری میں استعمال کر لیا جائے۔سیمل کی نرسری لگانے سے پیشتر زمین کو ہل چلا کر تیار کیا جائے اس میں گوبر کی کھاد اور نہر کی بھل بھی ڈال لی جائے تو بہتر ہو گا۔اس کے بعد زمین کو کراہ سے ہموار کر کے ڈیڑھ فٹ چوڑی وٹیں بنائی جائیں جن کے درمیان آبپاشی کے لئے نالیاں موجود ہوں۔سیمل کا بیج پوری وٹوں کے کناروں پر قطار کی صورت میں ڈال دیا جائے۔نالیوں میںآبپاشی اس طریقے سے کرنی چاہیے کہ بیج والی مٹی نم رہے۔وٹوں کے کناروں پر لگائے گئے بیج تقریباََ سات سو یوم بعد اگ آتے ہیں۔جون میں اچھی زمین پر لگائی نرسری کے پودے آنے والے موسم برسات میں ہی شجرکاری کے لئے کام آسکتے ہیںاگر انہیں کہر سے بچایا جائے۔
پودا جات لگانے کا طریقہ: سیمل کی شجرکاری دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔سیمل لگانے کا معیاری طریقہ قلموں سے ہی ہے۔بہر حال پوراپودا بھی جڑوں سمیت اکھاڑ کر گڑھے میں لگایا جاسکتا ہے۔اگر پودے سے قلمیں بنانی مقصود ہوں تو شاخ کا 8سینٹی میٹر حصہ اور جڑکے22سینٹی میٹر حصہ کو کاٹ کر بنائی جاسکتی ہیں۔یہ قلم جسکی کل لمبائی30سینٹی میٹر اور موٹائی تقریباََ2سینٹی میٹر ہو گی۔22سینٹی میٹر گہرے سوراخ میں جو نمدار مٹی میں لوہے کی سلاخ سے بنایا جاتا ہے لگائی جاتی ہے قلم زمین میں لگانے کے بعد سوراخ کے گردکی مٹی دبادی جاتی ہے۔سیمل نہری زمینوں میں سے پانی کے کھالوں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ لگایا جاتا ہے پودوں یا قلموں کا درمیانی فاصلہ مناسب رکھنا چاہیے کیونکہ سیمل تیز بڑھت کرنے والے درخت ہیں۔اور بہت قریب لگانا فائدہ مند ثابت نہ ہو گا دو قلموں کا درمیانی فاصلہ عموماََ4میٹر رکھا جاتا ہے نہری علاقوں میں سیمل کی بڑھت خاصی تیز ہو تی ہےاور خصوصاََ نرم اور گہری زمین بہتر رہتی ہے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سیمل کے پودے کی بڑھت پہلے سال نسبتاََ کم ہو تی ہے اور عمر کے ساتھ اس کی بڑھت میں تیزی آجاتی ہے۔ماہ جون سے اگست تک بڑھنے کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔سخت زمین سیمل کی نشو ونما پر خاصا منفی اثر ڈالتی ہے۔سیمل کی فصل کو کہر کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں کہر پڑتا ہے یہ پودا زمین کی سطح تک مر جاتا ہے مگر اس میںگھبرانے کی بات نہیںہے کیونکہ آنے والے بہار کے موسم میں اس پودے کے مڈھ سے نئی شاخیں نکل آئیں گی۔اس سلسلے میں بہتر یہ ہو گا کہ جون میں لگائی گئی نرسری کے پودے موسم بہار میں لگائے جائیں جن کے نتائج بہتر ہوں گے۔اگر قلم کی بجائے نرسری کے پودے لگانے مقصود ہوں تو یہ مارچ کے مہینے میں لگانے چاہیئں جب ان پودوں پر پتے نہ ہوں مگر اس بات کا یقین کر لیجئے کہ پودے کو پانی باقاعدگی سے ملتا رہے تا کہ مٹی نم رہے۔
افزائش:
پودایا قلم لگانے کے بعد اس کی نگہداشت کا وقت آتا ہے ۔پانی ہر پودے کی ضرورت ہو تی ہے ۔مگر پانی اس قدر نہ دیا جائے جو زمین پر کھڑا رہے۔اس سے پودا مرجانے کا خدشہ ہو تا ہے ۔اس بات کا تعین کر لیں کہ مٹی نم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیم زدہ زمین پر سیمل کی کاشت ممکن نہیں اگر سیمل برسات میں لگایا گیا ہے تو پہلی بارش کے بعد پودے یا قلم کے اردگرداگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کر دیںتاکہ پودا اپنی صحیح نشوونماپانے اورسورج کی روشنی پودے تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچے ۔جڑی بوٹیوں کی تلفی مناسب وقت کے بعد کرتے رہنا چاہیے۔تاکہ پودا اتنا بڑا ہو جائے کہ اسے ان جڑی بوٹیوں نقصان نہ پہنچے۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایسی جگہ جڑی،بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے پودے کی بڑھت عام زمین سے دو گنی ہوتی ہے۔اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ اس پودے پر جس کے اردگرد جڑی بوٹیاں نہ ہوں کہر کا اثر بھی کم ہو تا ہے۔قدرتی طور پر سیمل کو شاخ تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ درمیان والے تنے کے گرد ایک چکر کی صورت میں نکلنے والی نچلی شاخیں ایک ہی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کے بعد خودبخود خشک ہو جاتی ہیں۔یوں بھی کسی قسم کے درخت کے لئے بلاضرورت شاخ تراشی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کا بڑا بُرا اثر پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ بے احتیاطی سے کی ہوئی شاخ تراشی پودوں پر کیڑوں،بیماریوں کے حملے کا باعث بن سکتی ہے۔البتہ وہ پودے جو کہ دو یا دو سے زیادہ سیدھے بڑھنے والے تنے پیدا کر دیں ان میں سب سے سیدھے تنے کو بچا کرموسم سرما میں باقی تینوں کو کسی تیز دھار آلے سے کاٹ دیا چاہیے۔پودے کوShoot borer سے بچانے کے لئے اسے صحت مند رکھنا ضروری ہے۔
استعمالات: سیمل کی لکڑی کمرشل پلائی وینئیر(Veneer)دروازے،ماچس کی تیلیاں،جوتوں کی ایڑیاں اور کریٹ بنانے کے کام آتی ہے۔سیمل کا ریشہ تکیوں کے بھرنے کے کام آتا ہے۔چھال کے اندرونی حصہ کے ریشوں کے رسے بنائے جاتے ہیں۔سیمل کی جڑوں میں پروٹین،دوسری جڑوں والی زرعی فصلوں کے برابر ہوتی ہے البتہ کیلیشم مقابلتاََ زیادہ ہوتا ہے۔سیمل کی جڑیں ادویاتی تاثیرکی بھی حامل ہوتی ہیں،پھول اور پتے چارہ کے کام آتے ہیںمثال کے طور پر خرگوش سیمل کے نومولود تنے شوق سے کھاتے ہیںچوہے،سور اور خارپشت اس کی جڑوں کو کھانا پسند کرتے ہیں۔لکڑی کا اوسط وزن5200گرام فی کیوبک سینٹی میٹر اور حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت4900کلوکیلوری فی کلو گرام ہے۔
معاشیات: سیمل عام طور پر کھالوں اور راستوں کے کنارے پر لگائے جاتے ہیں۔جہاں پر ان کی بڑھت خاصی بہتر ہوتی ہے۔قطاروںکی صورت میں لگائے گئے سیمل تقریباََ دس سال کی عمر میں فی درخت ایک ہزار روپے سے پندرہ سو روپے مالیت کے ہو جاتے ہیںسیمل کو زرعی شجرکاری میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اسے15فٹ15x فٹ کے فاصلے پر لگا کر درمیانی رقبہ میں دو تین سال تک مختلف اقسام کی زرعی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔اس رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ضروری ہے۔


The Silk Cotton tree (Bombax Ceiba), locally known as "Sumbal". A tree that matches its name in beauty, and it is often covered with flowers and strands of silk.