Saturday, 11 July 2015

Eucalyptus citriodora


نباتاتی نام :یو کلپٹس سٹریوڈورا Botanical Name:Eucalyptus citriodora Hook
خاندان ©: مرٹیسی Family: Myrtaceae  
انگریزی نام:لیمن سکینٹیڈ گم Lemon Scented Gum
دیسی نام: سفیدہ Sufeda
ابتدائی مسکن(ارتقائ): شمال مشرقی آ سٹریلیا ۔پاکستان میں ہموار اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے
قسم:  سدا بہا ر



 شکل:تاج نما                 قد:40 میٹر   قطر:2-1 میٹر
سفیدہ                         تعارف:سفیدے کا طبعی مسکن آسٹریلیا ہے پاکستان میں یہ تقریباََ ایک صدی پہلے متعارف ہوا اب یہ سطح سمندر سے لے کر ایک ہزار میٹر (3300 فٹ)کی بلندی تک کاشت کیا جاتا ہے اس ہر قسم کی زمین میں اگایا جا سکتا ہے اور ان چند درختوں میں سے جو کلر اور تھور میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن اس کو مناسب بڑھنے کے لئے کھلی روشنی درکار ہے۔سفیدہ ایک بڑا ،سیدھالیکن کبھی کبھار بے قاعدہ شکل کا ہوتا ہے اسکی چھتری چاروں طرف سے زمین کی طرف جھکی ہوئی محسوس ہوتی ہے اس کے تنے کا لپیٹ 3 سے3.5 میٹر (9.9 سے11.5 فٹ)اور بلندی 30 میٹر(100 فٹ) سے بھی زائد ہو سکتی ہے ،سفیدے کی چھال چکنی،ہموار،خاکستری یا سفید مائل ہوتی ہے جس پر بھورے رنگ کے داغ اکثر نظر آتے ہیں ۔
پتے: سفیدے کے پتے 10سے15 سینٹی میٹر لمبے ،کم وبیش درانتی نما ور سائز میں یکساں ہوتے ہیں البتہ نو مولود پودے کے پتے چوڑائی میں ذرا چھوٹے اور تیز نوکدار ہوتے ہیں پھول شہدکی مکھیوں کے لئے پر کشش ہوتے ہیں اور سفیدے کے پھولوں سے تیار شدہ شہد سفید اور صاف شفاف ہو تا ہے اس کا بیج خشخاش کے دانے کے برابر ہوتا ہے ۔یہ درخت مختلف اقسام کی آب و ہوا میں پروان چڑھ سکتا ہے تاہم اس کو مرغوب سیلابی وادیاں اور دریاو ¿ں کے کنارے پسند ہیں لیکن سفیدہ بڑی حدتک خشک سالی اور شور(تھور) کو بھی برداشت کر لیتا ہے سفیدہ کم از کم 15 سے20 فارن ہائیٹ اور زیادہ سے زیادہ 110 تا115 فارن ہائیٹ تک گرمی بھی برداشت کر سکتا ہے۔یہ صحراو ¿ںمیں بھی آبیاری سے کاشت کیا گیا ہے اور فورٹ منرو(بلندی18 سو میٹر )میں بھی اگایا گیا ہے غرضیکہ یہ ایک ایسا درخت ہے جو پاکستان کے ہر خطے میں کامیابی سے اگایا گیا ہے۔
پتے سادہ ہیںکم چوڑے اور بھالے کی شکل کے20-10 سینٹی میٹر لمبے اور 2.5-1 سینٹی میٹر چوڑے،چھال ہموار اور تنا سیدھا،چھال سفید اور سلور بھوریbluish a dimpled appearance
 پھول کا رنگ :                پھول آنے کا وقت: فروری۔مارچ۔پھول تین یا پانچ گروپوں میں ہوتے ہیں
پھل :پھل کیپسول کی طرح اورکئی چھوٹے بیج اور آدھی گول چیز کی شکل کے ہوتے ہیں،کیپسول ستمبر اور اکتوبر میں پکتے ہیں۔
کاشت: بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔ سٹور کیا گیا بیج کافی عرصے تک اگا کے قابل ہوتا ہے بیج سے ،تیزی سے بٹرھنے والا درخت ہے، اس کی ریکارڈ بلندی 326فٹ ہے،آسٹریلیا میں اسکی متعدد قسمیں کاشت ہوتی ہیں، تنا سفید ہوتا ہے،اسکے پتے لیموں کی خوشبو رکھتے ہیں،بیج اور زیربچہ ۔
جگہ کا انتخاب:ایک بہت غیر رواداردرخت جو Poor gravelyجیسی لمبی او ر اچھی نکاسی والی زمینوں پر بڑھتا ہے۔بارش کی حد900-600 ملی لیٹر سالانہ۔نیم بارانی،گرم مرطوب،ذیلی گرم مرطوب،ٹھنڈی مون سون آب و ہوا کو ترجیح دیتا ہے درجہ حرارت40-5 ڈگری سینٹی گریڈ۔سطح سمندر سے بلندی2000 میٹر
بیج حاصل کرنا:              
10 سال سے یا اس سے زیادہ کم کے درختوں سے کیپسول اتار کر دھوپ میں پھیلا دیں اور مناسب سوراخ والی چھاننیوں سے گزار کر صاف بیج اور چھلکے وغیرہ علیحدہ علیحدہ کر لیں۔
روئیدگی:                     
سفیدے کا بیج کنالیوں (مٹی کے ہموار سطح کے برتن)میں بکھیرا جاتا ہے اوپر برائے نام ریت کی تہ ڈالی جاتی ہے اور بوری یا کھردرا کپڑا برتن کے اوپر رکھ کر آبپاشی کی جاتی ہے تاکہ نمی موجو د رہے بیج اگنے پر جب اس میں دوپتیاں آئیں تو پلاسٹک کی تھلیوں میں اس طرح لگایا جاتا ہے کہ پتلی جڑ بلکل سیدھی رہے موزوں حالات میں پودا مطلوبہ جگہ پر لگانے کے قابل ہو جاتا ہے پولی تھین بیگ میں جب پودا تین ماہ کا ہو جاتا ہے تو اس کی جڑیں زمین میں جانا شروع ہو جاتی ہیں س وقت پودوں کی جڑوں کی تراش خراش اور کٹائی ضروری ہو جاتی ہے اس عمل کے پودے کو اچھی طرح پانی دیں تاکہ وہ Shock کی حالت میں سنبھل جائے۔پولی بیگ میں اگائے ہوئے پودوں کی چھانٹی بھی ضروری ہے۔
اقسام:        پاکستان میں سفیدے کی چار اقسام زیادہ اگائی جاتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(1 )یوکلپٹس کمیلڈولینسز:
درختوں کی تعداد اور رقبہ کے اعتبار سے یہ قسم سب سے زیادہ اگائی جارہی ہے کیونکہ آسٹریلیا کے مختلف علاقوں سے حاصل کی گئی اس کی مختلف ذیلی اقسام پاکستان کے زیادہ تر حصوں میں نہایت کامیاب رہی ہیں بڑھت اور پیداوار کے لحاظ سے یہ قسم سب سے آگے ہے بارانی علاقوں اور زرعی زمینوں پر یہی قسم سب سے زیادہ لگائی جا رہی ہے اور زمینداروں میںبہت مقبول ہو چکی ہے گرم موسم میں اس کی شاخوں اور تنے پر سے زیادہ تر چھال اتر جاتی ہے۔
(2 )یوکلپٹس سٹریوڈورا ©:               
یہ قسم زیبائشی مقاصد کے لئے استعمال کی جارہی ہے کیونکہ اس کا سفید رنگ والا سیدھا اور ملائم جلد والا تنا اور ہلکا چھتر بہت خوبصورت ہوتا ہے اور یگرپودوں پر کم سایہ کرتا ہے اس کے پتوں کو مسلنے سے کھٹی کے پتوں جیسی خوشبو نکلتی ہے۔موسم کے آغاز میں اس قسم کے درختوں کی تمام شاخوں اور تنوں پر سے سطح زمین تک گذشتہ سال کی چھال مکمل طور پر اتر جاتی ہے اور نئی چھال پیدا ہوتی ہے بعض ممالک خصوصاََبرازیل میں یہ قسم بڑے پیمانے پر ایندھن حاصل کرنے کے لئے لگائی جاتی ہے۔
(3 )یوکلپٹس ٹیریٹی کورنس:              
یہ قسم بتائی گئی قسم سے مشابہت رکھتی ہے تا ہم میدانی علاقوں میں اس کے تنے سیدھا پن اور بڑھنے کی رفتا ر یوکلپٹس کمیلڈولینسز کے مقابلے میں کم تر ہے یہ قسم کم گرم میدانی علاقوں اور چار پانچ ہزار فٹ تک بلند پہاڑوں میں بہتر ثابت ہوتی ہے اس کے پتوں میں خوشبو دار تیل کی شرح پہلے بتائی گئی قسم کے مقابلے میںزیادہ ہے اس کی شاخوں اور کم عمر کے تنے سے چھال اترتی ہے تین چار سال زیادہ عمر کے پودوں کی چھال کھردری اور بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔
(4 )یوکلپٹس مائیکروتھیکا
یہ قسم مندرجہ بالا تینوں قسموں کے مقابلے میں آہستہ بڑھتی ہے اور جسامت کے لحاظ سے بھی مقابلتاََ کم ہے لیکن اوپر بتائی گئی اقسام کے مقابلے میں سب سے زیادہ سخت جان ہے اور پاکستان کے تمام میدانی اور نیم پہاڑی علاقوں لے لئے موزوں ہے یہ قسم کلر اور خشکی کو بخوبی برداشت کرتی ہے جس کی وجہ سے کم صلاحیت والی زمینوں اور آبپاشی کے تھوڑے و سائل والے علاقوں میں ایندھن حاصل کرنے کے لئے موزوں ہے اس کے پتے پر سیاہی مائل کھردری چھال ہوتی ہے جو کہ اترتی نہیں ہے ۔البتہ بلندی پر نکلنے والی شاخوں پر سے تھوڑی بہت چھال اترتی ہے۔
شجر کاری:                   
سفیدے کی شجر کاری کے لئے نرسری میں تیار کئے گئے سالم پودے استعمال کئے جاتے ہیں یہ پودے پولی تھین کے لفافوں میں دستیاب ہوتے ہیں اور ان کی عمر ایک ماہ سے ڈیڑھ سال تک ہوتی ہے آبپاشی کی مناسب سہولیات دستیاب ہوں تو سفیدہ کی شجر کاری سال میں کسی بھی موسم میں کی جا سکتی ہے دوسری صورت میں موسم بہار اور موسم برسات میں کی گئی شجر کاری کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں۔کم وبیش ایک فٹ لمبے پودے جن کے پورے تنے پر نئے پتے موجود ہوں شجر کاری کے لئے موزوں ہوتے ہیں کیونکہ ان کی جڑوں میں توانائی زیادہ ہوتی ہے اور ان کے زمین کے اندر مناسب انداز میں پھیلاو ¿ کے امکانات بڑے پودوں کے مقابلہ میں ہوتے ہیں تا ہم چھ انچ سے ڈیڑھ فٹ تک لمبائی کے پودے شجر کاری کے لئے بہتر پائے گئے ہیں زیادہ لمبے پودوں کی توا نائی مقابلتاََ کم ہوتی ہے اور ان کی جڑیں عموماََ ایک گچھے کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایسے پودوں میں ناکامی یا غیر تسلی بخش بڑھت کی شرح زیادہ ہوتی ہے زیادہ لمبے پودے عموماََ جھکے ہوتے ہیں اور ان کا تنا آخر کار درخت کا تنا نہیں بنتا بلکہ ان کے نچلے حصہ سے پھوٹنے والے شگوفے بڑھ کر درخت کی شکل اختیار کرتے ہیں۔آسٹریلوی ماہرین جنگلات کے مشاہدے کے مطابق نرسری میں زیادہ لمبے ہو جانے والے پودوں کو چھتری کا سہارا دے کر لگانے کی بجائے ان کے تنے کو 6 سے9 انچ کی لمبائی پر کاٹنے کے بعد لگانا بہتر ہے اس طرح جڑ اور تنے کا توازن بہتر ہو جاتا ہے شجر کاری کی کامیابی کے بعد پودے تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں اور ان کی اطراف سے بہت ساری باریک شاخیں نکلنے لگتی ہیں عام طور پر ان شاخوں کو کاٹ دیا جاتا ہے یہ عمل درست نہیں ہے اور اس سے پودے کمزور ہو کر آہستہ بڑھتے ہیں اور ان میں ٹیڑھا پن پیدا ہوسکتا ہے دراصل یہ پتلی شاخیں پودے کی صحت مند نشو ونما کے لئے نا گریز ہیں ۔کیونکہ
(1 ) ان پر موجود پتے جو خوراک پیدا کرتے ہیں وہ پودے کی جڑوں کی گہرائی اور پھیلاو ¿ میں اور بڑھت میں مدد گار ہوتی ہے جس کے نتیجے میں پودا زمین سے زیادہ خوراک اور پانی جذب کرتا ہے اور زمین میں زیادہ مضبوطی پاتا ہے ۔
(2 )ان شاخوں کی مہیا کردہ خوراک پودے کی چوڑائی کو بھی تقویت بخشتی ہے جس سے پودے کی عمودی بڑھت میں اضافہ ہوتا ہے۔
(3)ان شاخوں اور ان پر موجودان پر موجود پتوں کی وجہ سے پودے کا چھتر کا وزن بڑھتا ہے جس کے نتیجہ میں تنے کی موٹائی اور اس کی سختی میں اضافے کا رجحان پیدا ہوتا ہے ۔
(4 )یہ شاخیں محدود مدت کے لئے درکار ہوتی ہیں اس لئے پودے کی بلندی مزید بڑھنے اور اوپر کے حصہ میں نئی شاخیں پیدا ہونے کے بعد نچلی شاخیں قدرتی طور پر خشک ہو کر گر جاتی ہیں اور تنا خودبخود صاف ہو جاتا ہے۔
(5)اگر کسی پودے میں کم بلندی پر سے ایک سے زیادہ تنے بننے کا امکان ہو تو ان میں سے بہتر شاخ کو بچا کر باقی شاخوں کو کاٹنا ضروری ہے ۔
پودے لگانے کا طریقہ:                     
کسی قسم کی زمین اور کسی بھی موسم میں سفید ے کے پودے لگانے سے پہلے تیز چاقو یا بلیڈ پولی تھین لفافے کو کاٹ کر مکمل طور پر الگ کر لینا چاہیے اس کے بعد تیار شدہ گڑھے میں اس گاچی کو اس طرح رکھا جائے کہ گڑھے میں مٹی ڈالنے کے بعد پودے کی جڑ اور تنے کے ملاپ والا حصہ مٹی کی سطح کے برابر آئے ۔بڑے پودے کی صورت میں یہ حصہ ایک یا دو انچ گہرا دبانا بہتر رہتا ہے البتہ کسی بھی صورت میں اسے مٹی سے باہر نہیں ہونا چاہے بعض نرسریوں میں پو لی تھین لفافے بھرنے کے لئے بھربھری مٹی استعمال کی جاتی ہے ان لفافوں کو مکمل طور پر الگ کرنے سے مٹی بکھرنے اور جڑیں ننگی ہو جانے کا اندیشہ ہو تا ہے ایسی صورت میں لفافے کے صرف پیندا ہی کاٹ کر الگ کرنا چاہیے ۔پودا لگانے کے لئے گڑھا تیار کرتے وقت جڑی بوٹیاں ،پتھر اور ملبہ وغیرہ مکمل طور پر ہٹا دیا جائے ۔گھاس اور دب کی بہتات کی صورت میں گڑھے کے اردگرد بھی گہری گوڈی ضروری ہے کیونکہ سفیدہ اپنی تمام خوبیوں کے باوجود گھاس اور دب والی زمین میں خاطر خواہ نتائج نہیں دیتا گڑھے کی گہرائی کم از کم ایک فٹ اور قطر ڈیڑھ فٹ رکھنا چاہیے۔مٹی ،ریتلی،چکنی یا پتھریلی ہونے کی صورت میں بھل یا میرا مٹی گڑھے کو بھرنے کے لئے استعمال کی جائے ۔کھاد ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ بھرنے کے بعد گڑھے میں پودے کو کم از کم چا ر گیلن پانی ڈالنے کی گنجائش ہونی چاہیے مختلف قسم کی جگہوں پر پودے لگانے کے مختلف طریقے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
بارانی علاقوں :              
چونکہ ہیاں آبپاشی کا انتظام نہیں ہے اور ہاتھ سے پانی دینا مہنگا ہوتا ہے ۔پودے لگانے کے لئے گڑھے اس طرح بنائے جائیں کہ بارش کے پانی سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس مقصد کے لئے پودا لگانے کے بعد گڑھے کے گرد مٹی اس طرح لگائی جائے کہ پودے سے اوپر کی ڈھلوان والی جانب کھلی ہو تاکہ بارش کا پانی گڑھے میں آ سکے اور پودے سے نچلی ڈھلوان کی طرف گولائی میں مٹی کا بند بنایا جائے ۔تاکہ گڑھے میں آنے والے پانی کو گڑھے ہی میں روکا جا سکے۔
میدانی علاقوں :            
جہاں آبپاشی کی سہولیات موجود ہوں ۔سفیدے کے پودے مندرجہ ذیل نمونوں پر لگائے جاسکتے ہیں۔
 ۔قطاروں میں:             
اس صورت میں اگر دستی آبیاری کرنی ہو تو پودوں کو گڑھوں میں لگایا جاتا ہے اور گڑھے میں پانی دینے کی گنجائش پہلے بتائے گئے طریقہ کے برابر رکھی جاتی ہے البتہ مٹی گڑھے کے گرد بند کی شکل میں لگائی جاتی ہیں اگر نالی کے ذریعے پانی دینا ہو تو نالی کے کنارے تقریباََ تین انچ نیچے سلاٹ بنا کر ان میں گاچی سے قدر بڑا گڑھا بنا کر پودے لگائے جاتے ہیں ۔
 ۔ذخیرے کی شکل میں:   
ذخیرے کی صورت میں پودوں کو پانی کیاریوں میں دیا جاسکتا ہے اور نالیوں کے ذریعے بھی ۔ اگر کیاریاں بنائی جائیں تو گڑھوں کے گرد بند نہ بنائے جائیں ۔بصورت دیگر اوپر دئیے گئے طریقے کے مطابق پودے لگائے جائیں۔
 ۔سیم یا موسمی کھڑے پانی والی جگہ میں:   
ان جگہوں ہر گڑھوں یا نالیوں کی بجائے پودے مٹی کی ایک سے ڈیڑھ فٹ کی بلند ڈھیریوں لگائے جاتے ہیں تا کہ زیادہ نمی کے موسم میں پودے کی جڑوں کو سانس لینے کے لئے ہوا ملتی ہے رفتہ رفتہ پودے کی جڑیں نیچے زمین میں بھی سرایت کر جاتی ہیں۔
 ۔فاصلہ:    
تجرباتی طور پر سفیدے کی پانچ پانچ فٹ پر شجرکاری کامیاب پائی گئی لیکن اس صورت میں بعض پودے دب جاتے ہیں اس لئے ذخیرے کی شجرکاری کے کئے کم از کم فاصلہ 6 فٹ تجویز کیا جاتا ہے ۔قطاروں میں لگانے کے لئے البتہ پودے 5 فٹ پر لگائے جا سکتے ہیں کیونکہ قطاروں کا درمیانی فاصلہ زیادہ ہوتا ہے۔
                زراعت کے ساتھ مخلوط شجر کاری کے لئے سفیدے کو کھیتوں کے کناروں پر یا کھیتوں کے اندر تیس سے پچاس فٹ کے فاصلے پر قطاروں میں لگانا بہتر ہے۔
۔احتیاط اور حفاظت:                        پودے کو پانچ چھ فٹ بلندہونے تک ان کو گھاس اور جڑ ی بوٹیوں سے محفوظ رکھا جائے چونکہ بکریاں اور اونٹ سفیدے کے پودوں کو کھاتے ہیں اس لئے پودوں کو مویشیوں سے بچایا جائے۔
۔بڑھت پیداوار:
کسی بھی درخت کی کوئی ایک قسم ہر طرح کے حالات میں مساوی پیدا وار نہیں دے سکتی ۔اس طرح سفیدہ کی کسی ایک قسم سے بارانی ،میدانی ،دریائی علاقوں یا مخلوط شجر کاری میں ایک ہی پیداوار دینے کی تواقع نہیں کی جاسکتی تا ہم تجربات اور مشاہدات سے مندرجہ ذیل اعدادو شمار حاصل ہوئے ہیں۔
یوکلپٹس کمیلڈولینسز کے پنجاب میں لگے ہوئے مختلف نہری ذخیروں میں سفیدہ 6 فٹ6x فٹ،6 فٹ 10x فٹ اور 10 فٹ10x فٹ پر لگایا گیا تھا۔ان ذخیروں میں بعض ضروریات کے لئے چھوٹی عمر کے پودوں کی کٹائی یا چھدرائی بھی ہوتی رہی دو سے سے سولہ سال کی عمر تک فصل کے نمائندہ حصوں کی کٹائی کرنے کے بعد حاصل ہونے والی لکڑی کی مکمل پیمائش کی جاتی رہی۔اس کے علاوہ پودوں کی اوسط اونچائی اور قطر کی پیمائش بھی کی گئی ۔اس تجربہ مین پانچ سال زیادہ سے زیادہ مشترکہ عمر تھی جس پر تینوں فاصلوں پر لگے ہوئے درختوں پر مشاہدات کئے گئے ۔ذیل میں پیمائش اور پیداوار کا موازنہ دیا گیا ہے۔
فاصلہ                         عمر                             پیداوار فی ایکڑ                                بلندی                         اوسط لپیٹ
6x6 فٹ                    5 سال                       2278 مکعب فٹ                           51 فٹ                      15.3 انچ
10x6 فٹ  5 سال                       1856 مکعب فٹ                           48 فٹ                      15.3 انچ
10x10 فٹ               5سال                        1340 مکعب فٹ                            51 فٹ                      15.85 انچ
                اس طرح دیکھا جائے تو پنجاب کے نہری جنگلات میں اوسط سالانہ پیداوار 2278 مکعب فٹ فی ایکڑ حاصل کی گئی ۔دیگر مشاہدات سے ظاہر ہوا ہے کہ چھ انچ قطر اور پچاس فٹ کی بلندی والے سفیدے سے 4.3 مکعب فٹ لکڑی حاصل ہو سکتی ہے جبکہ ایک مکعب فٹ خشک لکڑی کا وزن 18 کلو گرام ہو تا ہے تا زہ یعنی گیلی لکڑی کا وزن اس سے زیادہ ہو تا ہے ۔
صفائی شاخ تراشی:
 اگر سفیدہ ذخیرہ کی صورت میں لگایا جائے تو کھیت کی جڑی بوٹیوں کو ہر سال تلف کر دینے سے پیداوار بڑھ جاتی ہے ۔سفیدہ کا تنا عموماََ کمزور ہوتا ہے اس لئے اس کی اس طرح شاخ تراشی کرنی چاہیے کہ اس کا تنا سیدھا رہے ۔شاخ تراشی کسی تیز دھار آلے یا کلہاڑی سے کی جائے اور صرف اتنی شاخیں کاٹی جائیں جس سے پودا سیدھا ہو جائے مکمل شاخ تراشی نہیں کرنی چاہیے۔
نمایاں خصوصیات:          
بیماریاں:
پیداوار : بڑی تیز بڑھوتری ، اوسط MAI   10 to 15 m/ha/yr کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ
لکڑی کی خصوصیات :
دانہ : بل دار آپس میں جکھڑے ہوئے،درمیانہ کھردرا، غیر ہموار لچکدار
رنگ :گیلی لکڑی ہلکی سبز،سخت لکڑی ہلکی بھوری،
کثا فت : sg 0.78 ۔ کلوریز کی مقدار 4800کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی  ©:سخت ۔سکڑنے پھیلنے والا اور لچکدا
 ۔ایندھن کے نقطہ نظر سے سفیدے کی اہمیت:
مکمل طور سے جلنے پر سفید ے کی ایک کلو گرام لکڑی 4800 کلو حرارے مہیاکرتی ہے۔
استعمالات:
سفیدے کی کچی لکڑی ،ہلکی خاکستری ،پکی لکڑی سرخی بھوری چمکدار اور بھاری ہوتی ہے ۔اس کا اوسط وزن،ہوا میں خشک ہونے کی صورت میں 0.705 گرام فی کیوبک سینٹی میٹر ہوتا ہے اس کا گرین پیچیدہ باہم پیوست ہوتا ہے ۔لکڑی اوسط درجہ کی کھردری یا کسی حد تک ہموار بافت والی اور مسامدار ہوتی ہے اس پر بڑھوتی کے دائرے نمایاں نہیں ہوے۔لکڑی پر نفیس دھاریاں ہوتی ہیں جو کھلی آنکھ سے دیکی جاسکتی ہیں اگر لکڑی کو کسی چھت کے نیچے رکھا جائے تو یہ پائیدار ہوتی ہے کچی لکڑی کو دیمک تباہ کر دیتی ہے سفیدہ کی لکڑی کریٹ سازی،کاغذسازی فرنیچر سازی فرش اور دیواروں کی پینلنگ میں استعمال ہوتی ہے اس کا تیل صابن سازی اور مچھر مار دوائیوں میں استعمال ہو تا ہے ۔
 استعمال ©:ایندھن،چارکول،فرنیچر،پرفیومleaves،shelterbelt،مگس بانی، ،فائبر بورڈ اور سامان کے دستے، لکڑی بہترین ہوتی ہے اس سے نیلی گوند حا صل ہوتی ہے
سیم تھور زدہ زمین کا علاج سفیدہ
یہ سدا بہار اور تیزبڑھت والادرخت ہے۔
یہ تمام سال کسی بھی موسم میں لگایا جا سکتا ہے ۔
ذخیرہ کی صورت اسے 10x10 فٹ اور قطاروں کی صورت میں 1 سے10 فٹ کے فاصلے پر لگانا زیادہ بہتر ہے۔
یہ بارانی اور دیگر کم پیداواری صلاحیت کی زمینوں میں کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے۔
یہ کلر اور سیم زدہ زمین کے لئے موزوں ہے۔
اس کی لکڑی جلانے کے لئے نہایت موزوں ہے اور اس سے کوئلہ بھی تیار کیا جاسکتا ہے ۔
اس سے سیدھیاں بلیاں حاصل ہوتی ہیں جہ کہ عمارتیں بنانے کے کام اور کھمبوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ۔
اس کی لکڑی کاغذ ،چپ بورڈ اور ہارڈبورڈ کی صنعت کے لئے بہترین ہے
یہ 14 سال کی عمر میں 10 من لکڑی دیتا ہے جو 110 روپے من کے حساب سے آسانی بک جاتی ہے



No comments:

Post a Comment