Sunday 3 May 2015

Botanical Name:Acacia arabica Acacia Nilotica (Linn.) Delile نباتاتی نام:اکیشیا نیلوٹیکا

Botanical Name:Acacia arabica Acacia Nilotica (Linn.) Delile نباتاتی نام:اکیشیا نیلوٹیکا
Family: Leguminosae/ Fabaceae - Mimosoideae, Mimosaceae مائمو سیسی : خاندان
، Acacia arabica,Babul, Indian Gum tree, Black babool, انگریزی نام: اکیشیا اریبیکا ، ببول، انڈین گم ٹری، بلیک ببول
Kikar,Gumy Keekar , Babul دیسی نام: کیکر ، ببول
ابتدائی مسکن(ارتقائ):افریقہ،مشرقِ وسطی اور برِصغیر پاک وہند ۔ پاکستان کا مقامی ہے اور سندھ ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد میں بڑے پیمانے پر ۔ جنگلی درخت ہونے کے باوجود پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے ۔   
قسم:سدا بہار
شکل: گلدان نما۔ مخروطی  پھیلا:15-40فٹ ۔  قطر1 میٹر تک ریکارڈ کیا گیا ہے    قد:10-12 میٹر
 bipinnate  5-2  انچ لمبے, برگچہ 12-15جوڑوں میں، 1/8سے 1/4انچ 2.5 سے 7.5 سینٹی میٹر لمبے۔ بھورے کانٹے پتوںکی جڑ سے نکلتے ہیں۔ پتے: مرکب
 پھولوں کا رنگ:پیلا ،چھوٹے روہیںدار پھول گچھوں میں۔ ،گول سر کے ساتھ، ہلکے خوشبودار،  پھول آنے کا وقت:جون ،جولائی
پھل: پھلیاں 3-7انچ×1/2انچ بھوری جن میں 8-12بیج ہوتے ہیں۔8000بیج فی کلوگرام ۔
جگہ کاانتخاب/  کیکر ایک درمیانے قد کا سدا بہار درخت ہے ،یہ ان خشک ،بنجر خطوں میں از خود اگ آتا ہے یا اگایا جاتا ہے جہاں سردی زیادہ نہیں ہوتی،یہ اونچی نیچی زمینوں اور گھاٹیوں میں بھی پایا جاتا ہے ،جو پہاڑیوں میں تقریبا 450 میٹر کی بلندی تک چلی گئی ہوں۔ایسے علاقوںمیں جہاںکیکر اگ سکتا ہے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت (سائے میں)120 فارن ہائیٹ اور کم از کم درجہ حرارت 35فارن ہائیٹ تک ہو سکتا ہے ،کیکر کی عمدہ نشونما کے لئے بارش کی صحیح مقدار 50 سینٹی میٹر سالانہ) اوسطا)ہونی چاہیے۔اگرچہ یہ زیادہ خشک آب و ہوا میں بھی نشو نما پا سکتا ہے اور ایسے علاقوں میں بھی شاخو برگ لا سکتا ہے جہاں بارش کی سالانہ اوسط 75سے125 سینٹی میٹرہو۔کیکر زرخیز زمینوں پر بھی پایا جاتا ہے جو موسم برسات کے دوران پانی کی بھاری مقدار جذب کر لیتی ہے۔کنکر یلی طاس والی زمینوں میں کیکر پر اسکا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔کیکر شور ،نمکین اور کلر والی زمین میں بھی اگ آتا ہے لیکن ایسی زمینوں میں کیکر کی کامیابی کے لئے زیادہ نمی اور آبپاشی ضروری ہوتی ہے۔اگر پانی نہ ملے تو خشکی کی جہ سے ہی کیکر کامیاب نہیں ہوتا ۔زیر زمین نمکین پانی بھی کیکر کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتا۔کیکر کا درخت کبھی بھی مکمل طور پرپتوں سے خالی نہیں ہوتا کیکر کی پھلیاں اپریل سے جون تک پکتی ہیں اور پھر تیز ہواو¿ں کے ساتھ درختوں سے دور تک اڑجاتی ہیں جو موسم گرما میں اکثر چلتی ہیں ۔کیکر کا درخت تین سال کی عمر سے پھل لانا شروع کر دیتا ہے ۔لیکن اس کے بیج میں قوت نمودار درخت کی عمر بارہ سال ہونے کے قبل نہیں آتی کیکر کا بیج خشک پھلیوں کو کاٹ کر حاصل کیا جاتا ہے ۔فی کلو گرام تقریبا7200 بیج ہوتے ہیں۔کیکر کہرے کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے یہ روشنی طلب درخت ہے کسی حد تک خشکی برداشت کر لیتا ہے لیکن زیادہ خشکی سے مر جاتا ہے ما ل مویشی بھیڑ بکریاں اور اونٹ اسکے پتے ،پھل اور پھول شوق سے کھاتے ہیں۔  
مختلف قسم کی زمینیں۔ph 5-9 ، خشک مزاحم درخت. مناسب نمی دستیاب ہو ۔ ، sodic نمکین سائٹس برداشت کرے گا.
بارش کی حد 125 تا 1300 ملی میٹر سالانہ کی ضرورت ہوتی ہے. درجہ حرارت کی حد 1 سے 45 ڈگری سینٹی گریڈ ۔ ایک نیم بنجر، ذیلی اشنکٹبندیی / اشنکٹبندیی آب و ہوا کو ترجیح دیتی ہے. یہ جرات اور خشک سالی کے خلاف مزاحمت پالا طور پر ذیلی پرجاتیوں کے درمیان واضح اختلافات دکھائی دیتے ہیں۔
کاشت:بیج،۔ بیجوں سے براہِ راست بویا جاتا ہے،یہ پالے اور ٹھنڈ کو برداشت نہیں کرتا۔ٹھہرے ہوئے پانی اور کھارے پانی کو کسی حد تک برداشت کر لیتا ہے۔ گائے کے گوبر میں ایک ہفتے کے لئے رکھ دیں تو اگا میں مدد ملتی ہے.. , پانی میں ابا ل کر بویا جاتا ہے۔
روئیدگی:
کیکر کا بیج اگر حفاظت سے رکھا جائے تو اپنی قوت نمو کئی سال تک قائم رکھ سکتا ہے کیکر کے ایک ہزار پودے اگانے کے لئے 2 سو گرام بیج درکار ہوتا ہے ۔اس کے لئے معمولی درجہ حرارت میں بیج کو 48 گھنٹے تک اسی پانی میں رکھا جائے۔کیکر کی مصنوعی افزائش نسل میں کوئی دقت حائل نہیں ہوتی مطلوبہ جگہ پر گہرا ہل چلا کر 48 گھنٹے تک بگھو کر رکھا ہوا بیج چھٹے کے زریعے بویا جا سکتا ہے ۔نشیبی یا سیم زدہ علاقوں میں کیکر کا بیج بندوں،منڈیروں یا پشتوں پر بویا جانا چاہیے۔ایسی زمینوں میں جہاں سیلاب کا پانی آجاتا ہے کیکر کا بیج سیلاب سے قبل بویا جانا چاہیے بشرطیکہ سیلابی پانی اس علاقہ میں اتنی مٹی (SILT )نہ چھوڑ جاتا ہو کہ نو مولود پودے اس کی تہہ سے باہر نہ نکل پائیں جن علاقوں کلر کافی ہو وہاں زمین کی دھلائی کے لئے پانی کی بڑی مقدار ضروری ہوتی ہے کلر والے علاقوں میں کیکر کی ناکامی صرف خشک سالی کی وجہ سے ہوتی ہے پانچ سال کے بعد یہ کلر اٹھی زمین انتہائی ذرخیز ہو جاتی ہے سندھ میں اس طریقہ کاشت کو ہڑی کہا جاتا ہے دریائی خطوں میں پلچھی اور کاہی فطری طور پر زیادہ پیدا ہوتی ہے اور کیکر کو دبا لیتی ہے۔کیکر کے نو مولود گھنے اُگتے ہیں یہ اس امر کی دلیل ہے کہ زمیں اور آب و ہوا کیکر کی نشو نما کے لئے موزوں ہے فصل گھنی ہونے کی صورت میں یہ ضروری ہے کہ ابتدائی مر حلے میں ہی پودوں کی چھدرائی کی جائے ۔اور پودوںکا درمیانی فاصلہ انکی اونچائی کے مطابق تین سے چار فٹ تک کر دینا چاہیے۔کیکرکے پودے جب پانچ چھ سال کے ہو جائیں انکی چھدرائی پھر سے کی جانی چاہیے مزید چھدرائی کے لئے پانچ سے دس سال کا پھیر بہتر ہے،چھدرائی پانی اتر جانے کے بعد کی جانی چاہیے تاکہ سیلاب میں اکھڑ جانے والے یا کسی دوسری طرح کا نقصان اٹھانے والے پودے کی صفائی ساتھ ہی ہو سکے۔
پودا جات لگانے کا طریقہ:
کیکرکی درختکاری کا بہترین موسمِ بہار یا موسم گرما کا اوئل ہے جبکہ بارانی علاقوں میں اسکے پودے موسم برسات میں لگائے جانے چاہیئں۔کلر والی زمین میں پودے لگائے جانے مقصود ہوں تو زیادہ بڑے پودے نہیں لگانے چاہیئں بلکہ ایک فٹ قد کے پودے سخت جان کرنے کے بعد لگانے چاہیئں۔جہاں بہت کلر والی زمین ہو وہاں نرسری میں اگائے گئے پودے مر جاتے ہیں ۔پودے لگاتے وقت لفافے کے پیندے کو کاٹنا چاہیے اور دیگر اطراف سے لفافے کو رہنے دیا جائے پودے لگانے سے پہلے پیندے کے نیچے 3-2 انچ اچھی قسم کی مٹی ڈالنی چاہئیے تاکہ پودے کو کلر والی زمین سے مانوس ہونے کے لئے مناسب موقع مل سکے ۔اگر زمین سیم زدہ ہوتو تقریبا 2 فٹ اونچی ڈھیری باہر سے لائی ہوئی مٹی کی بنا کر اسکے پودے لگائیں تاکہ وہ سیم زدہ زمین سے دوری ہی اپنی جڑ مضبوط کر لے۔دریائی علاقوں میں سیلاب کے پانی کے اترنے کے بعد اس کے بیج کا چھٹا دے دیا جاتا ہے اور قدرت کی فیاضی سے ننھے منھے پودوں کی گھنی پیداوار حاصل ہوتی ہے ۔دیہات میں جو رقبہ جات بیکار اور بنجر پڑے ہیں یا وہ زمین جس کی ذرخیزی بحال کرنی مقصود ہو وہاں پر کیکر کی شجر کاری کامیابی سے کی جا تی ہے بہترہے کہ کھیتوں میں لگانے کے لئے نرسری میں تیار کئے گئے پودے ایک سال کی عمر سے زیادہ نہ ہوں ورنہ ان کی جڑیں کافی بڑھ جاتی ہیں اور کامیابی سے شجرکاری نہیں کی جا سکتی ۔کیکر میں یہ خاص خوبی ہے کہ اگر اسے سردیوں میں کہر سے بچا لیا جائے تو یہ ان کی مشکل جگہوں مین پرورش پا سکتا ہے۔جہاں دیگر پودے نا کام ہو جاتے ہیں اگر زمین نرم اور ریتلی ہو تو بیجائی کے عمل اور مناسب کیکر کی کاشت با آسانی کی جا سکتی ہے ایک بات کا خیال رہے کہ نوزائیدہ پودے کھڑے پانی سرایت کرکے ملے تو یہ کامیاب رہتے ہیں ایسے علاقوںمیں جہاں سالانہ اوسطا بارش 20 انچ سے کم ہو آبپاشی نہایت ضروری ہو جاتی ہے ماسوائے دریائی رقبوں کے بارانی علاقے میں کیکر کی لگائی گئی فصل کو بارش نہ ہونیکی وجہ سے کافی نقصان پہنچتا ہے اور یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ 3-2 سال کے پودے بھی مر جاتے ہیں۔
پودوں کی افزائش:
اگر زمین پر پودے بیجائی کے طریقے سے لگائے گئے ہوں تو تقریبا چوتھے اور پانچویں سال انکی چھدرائی کی ضرورت ہوتی ہے اس عمل میں اچھی نشوونما پائے ہوئے پودوں کو وافر جگہ مہیا کرنے کی غرض سے نصف کے قریب پودے نکال دئیے جاتے ہیں تا کہ چناو
¿ کئے ہوئے پودے بہتر طور پھل پھول سکیں ۔اگر یہ عمل نہ کیا جائے تو حاصل ہونے والی فصل نزدیک ہونے کے باعث کمزور رہ جائے گی۔ایک خاص بات یہ ہے کہ کیکر کے درخت کو زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی چاہیئے اس لئے ننھے پودوں کے اردگرد جڑی بوٹیوںاور گھاس کی صفائی لازمی کر لینی چاہیے اگر یہ پودے سایہ دار جگہوں پر لگے ہوں گے تو مر جائیں گے یا کمزورورنجیف رہ جائیں گے اسکے علاوہ اگر سیدھا تنا حاصل کر نا مقصود ہو تو چوتھے سال غیر ضروری ٹہنیاں تنے سے اس طرح صاف کی جائیں کے ٹہنیوں کا معمولی سا حصہ بھی تنے کے ساتھ نہ رہے شاخ تراشی کے اس عمل کو اس طرح کیا جانا چاہئے کہ درخت کے نصف حصہ پر ٹہنیاں موجود رہیں تا کہ اسکی خوراک کا بندو بست ہوتا رہے۔
بیماریاں : بیج کے کیڑوں کے معمولی مسائل ہو سکتے ہیں
نمایاں خصوصیات:مدارینی خطہ اور زیر مدارینی خطہ کا پودا  یعنی تراپیکل اور سب ٹراپیکل۔ خشک علاقوں میں لینڈاسکیپنگ کے لئے، یہ ایک عام درخت ہے۔جو خود رو اور جنگلی حالت میں پاکستان کے درےائی اور آبپاشمیدانوں میں ملتا ہے ۔اسکے بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے اسے ریگستان کا طلائی درخت کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام گرم خطوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ 600 میٹر سے کم بلندی پر
پیداوار : آہستہ بڑھوتری ، اوسط
 MAI      4-5 کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ۔ 20 سال کی عمر کے لئے اوسط لمبائی اور قطر بالترتیب 10 میٹر اور 15.7 سینٹی میٹر ہے.
معاشیات:
اگر کھیت میں صرف کیکر کی درخت کاری کی جانی ہو تو بہتر ہے کہ دس دس فٹ کے فاصلے پر پودے لگائے جائیں کامیاب شجر کاری بیجائی کے ذریعے کی جا سکتی ہے لٰہذا ایسی صورت میں چوتھے پانچویں سال چھدرائی کی وقت اتنے پودے رہنے جائیں جو دس دس فٹ کے فاصلے پر رہ جائیں اس چھدرائی سے بھی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے چھدرائی کے بعد ایسے رکھے ہوئے پودے ایک ایکڑ میںتقریبا 425 درخت پیدا کرتے ہیں اگر ہم فی ایکڑ 350 درخت بھی شمار کریں تو دس سال بعد اچھی زمین سے یہ تقریبا 700 من بالن پیدا کریں گے اگر ہم موجود نرخ یعنی 150 روپے فی من بھی لگائیں تو 105000 روپے کی آمدنی ہوگی جو فی ایکڑ 10500 روپے سالانہ بنتی ہے۔
صوبہ سندھ میں تقریباََ150 سال سے ببول کو Hurree کی شکل میں لگایا جاتا ہے ہڑی کا رقبہ 5 ایکڑ سے لیکر 100 ایکڑ تک ہوتا ہے ہڑی عموماََ کلر والی زمین میں7,6 سال تک لگائی جاتی ہے ببول لگانے سے زمین سدھار کی جانب مائل ہوتی ہے اور کٹائی کے بعد اس میں گندم ،کپاس وغیرہ کاشت کی جاتی ہے۔یوں تقریباََ غیر آبادزمین آباد ہو جاتی ہے دس بیس سال کے بعد اگر زمین دوبارہ خراب ہونا شروع ہو جائے تو بھر ہڑی کاشت کر دی جا تی ہے اس عمل سے ایک خاص قطعہ زمین سے لکڑی بھی حاصل ہو جاتی ہے اور زرعیفصل بھی ۔اس عمل سے سندھ کے کاشتکار طبقہ نے بہت فائدہ اٹھایا ہے اب بھی ہڑی قریباََ 5000 ایکڑ پر کاشت ہو رہی ہے پنجاب میں کورے کی وجہ سے ہڑی بڑے پیمانے پر کاشت نہیں کی گئی لیکن جنوبی پنجاب میں تھور زدہ زمینوں پر ہڑی لگا کر ان زمینوں کو دو بارہ کار آمد بنایا جا سکتا ہے۔
لکڑی کی خصوصیات
دانہ : یک جان
رنگ :کچی لکڑی سفید، عمر کے ساتھ بھورے رنگ کی ہو جاتی ہے
کثا فت : sg 0.75 ۔ کلوریز کی مقدا4900 کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی : پائیدار،سخت،بھاری اور مضبوط
استعمال : یہ پاکستان کے مرکزی اور جنوبی علاقوں میں اہم ہے۔ اور اس کی لکڑی ایندھن اور چارکول لئے قابل قدر ہے. نوجوان درخت کے چرنے سے تحفظ کی ضرورت ہے. یہ ایک فارم جنگلات درخت کے طور پر عظیم صلاحیت ہے. یہ شورزدہ مٹی کی بحالی ، اور sodic سائٹس پر اگایا جا سکتا ہے۔ زمینی کٹا اور gullied میں کٹاو کو کنٹرول کرنے اور کے لئے مفید ہے.
چارہ، ایندھن اور چارکول، زرعی آلات، گڑھے جاتا، مگس بانی، گم، لاکھ پروڈکشن، ٹنین، باڑیں، زمین استحکام، نائٹروجن فکسنگ، اور دواوں (اسہال اور پیچش کے لئے چھال)۔ درخت کا ہر حصہ استعمال ہوتا ہے۔ چارہ: اس کے پتے اور پھلیاں جانوروں کے چارے کے لیے عام استعمال کیے جاتے ہیں۔پھلیاں پولٹری کے راشن کے حصے کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہیں۔پھلیاں خشک چارے کے طور پر بھی اہم ہیں۔ کیکر کو کانٹوںکی وجہ سے باڑ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔لکڑی ایندھن، فرنیچر، آلات اور تعمیرات کا سامان بنانے کے لیے انتہائی کارآمد ہے۔ریلوے کے پھٹے،زمینی کٹا کو روکنے، زمین کو زرخیز بنانے، ۔چھال میں سکڑا پیدا کرنے والا مادہ اسٹرنجنٹ(Astringent )ہوتا ہے ۔چھال سے ٹینن tanin))حاصل ہوتا ہے جو چمڑہ رنگنے کے کام آتا ہے۔رال ریزیز( resins)، مسواک، ربڑ بنانے میں، روائیتی ادویات، گوند: اسکی گوند بطوردوا، -1تشنج کے علاج کے لیے,spasmogenic -2خون کی نالیوں کی بندش کے علاج کے لیے vasoconstrictor،3 -بلند فشارِخون کے علاج کی دواanti hypertensive،-4اشتعال انگیزی کے خاتمےantiinflamatory،، , , antospasmodic3 .6, , anti platletaggregatory- پلیڈلیٹس کے اجتماع کے خلاف مزاحم۔
:
کیکر کی چھال ،پتے ،پھلیاںاور بیج ادویات میں استعمال کئے جاتے ہیں اس کی گوند میں تیزاب ہوتا ہے ۔کیکر کی چھال رنگ ٹینن بڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے ۔پھلیوں میں بھی 22 سے44 فیصد ٹینن ہو تا ہے کیکر کی چھال نہایت خشک کرنے والی اور پھلیاں واقع بلغم ہو تی ہیںکیکر کے گوند کا جوہر کیکیا کہلاتا ہے جریان خون کو روکتا ہے یہ ایک قسم کا ٹانک اور قابض عنصر ہے کیکر کی چھال کا جوشاندہ بواسیر میں استعمال ہو تا ہے اسکی گوند لیس دار شکل میں اسہال پیچش اور ذیابیطس میں بھی استعمال کرتے ہیں۔کیکر کا باریک پساہوا گوند کونین میں ملاکر بخار کے ایسے مریض کو استعمال کراتے ہیں جن کو اسہال اور پیچش کے امراض بھی لاحق ہوں۔اگر گوند کو گھی میں سرخ کر کے کھایا جائے تو بہترین ٹانک ہے کیکر کی لکڑی نہایت قیمتی ہوتی ہےاس سے درمیانی کوالٹی کا فرنیچر اور گھریلو استعمال کی اشیاءبنائی جاتی ہیںکیکر کی کچی لکڑی سفید مائل،پکی لکڑی ابتداءمیں گلابی مائل سفید ہلکی سرخ ہوتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عموما سیاہ دھاریاں بھر آتی ہیں یہ کھردری محسوس ہوتی یہ لکڑی بری مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔کیکر کی لکڑی خشک ہو تو اسے چیرنا کافی مشکل ہوتا ہے مگر جب سبز ہو ابھی خشک نہ ہوئی ہو تو اسے آسانی سے ناصرف چیرا جا سکتا ہے بلکہ اسے خم بھی دیا جا سکتا ہے اس پر ہاتھ اور مشین سے کام خوب ہو سکتا ہے اور زندہ کے بعد اسکی سطح ہموار اور چکنی ہو جاتی ہے اگر کیکر کی لکڑی سے بنی ہوئی کسی چیز کی باقاعدہ فلنگ کر کے پالش کی جائے تو پالش خوب چمکتی ہے ،یہ لکڑی بیل گاڑیاں،کشتیاں آلات کے دستے بنانے میں کام آتے ہیںزرعی کاموں کے سلسلے میں اس سے ہل ،سہاگے ،گو سہاگے اور کنوئیںکا سازو سامان بنایا جاتا ہے کیکر کی لکڑی کانو ں کے اندر سہارے کی تھمیاں بنانے کے لئے نہایت عمدہ ہے اور ایندھن بھی فراہم کرتی ہے لکڑی کا وسط وزن 750 گرام فی کیوبک سینٹی میٹر اور درجہ حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت 4900 کلو کیلوری فی کلو گرام ہے۔
ایندھن اور اعلی قسم کا کوئلہ حاصل کرنے کے لئے
اس کو کم پیدواری اور کلر اٹھی زمین مین لگایا جا سکتا ہے۔
یہ موسم بہار میں لگایا اور اس کا بیج جون جولائی میں اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔
کیکر کے پودوں کے کو فراسٹ (کورا)سے بچانا چاہیے۔
اس کی مضبوط اور دیر پا لکڑی مکانات کی تعمیر ،بیل گاڑیوں ،زرعی آلات اور کاشتکاری کی جملہ ضروریا ت کے لئے موزوں ہے۔
یہ زمین کی زرخیزی بڑھاتا اور کلر ختم کرتا ہے۔
اس سے ایندھن اور اعلی قسم کا کوئلہ حاصل ہوتا ہے۔
اس کی لکڑی کا چھلکا چمڑا رنگنے کے کام آتا ہے۔
اس سے حاصل شدہ گوند۔رنگوں اور دیسی ادویات مین استعما ل ہو تی ہے۔
اس کی شاخوں پر لاکھ کے کیڑے بھی پالے جاتے ہیں۔
اس کی پھلیاں اونٹوں اور بکریوں کے لئے چارہ کے طور استعمال ہوتی ہے۔
یہ20 سال کی عمر میں30 من لکڑی دیتا ہے جو کہ 200 روپے من کے حساب سے آسانی سے بک جاتی ہے۔

The Arabic Gum tree (Acacia nilotica), locally known as "Kiker", is common in Punjab. It is known as "dukh such ka saathi": a friend through joy and sorrow.

1 comment: