خاندان
©:میلی ایسی Family:Meliaceae
انگریزی نام:مارگوسا ٹری
Margosa tree
دیسی نام: نیم۔نم،بال نیم، نمبا Neem,Nim, Bal Nim, Nimba
مستعمل نام:۔ویپا Telgu:. Vepa نیمNeem
Common:-
تعارف:۔یہ ایک میڈیم سے بڑے سائز کا درخت ہوتا ہے۔
15 to 20 meterاونچائی ہوتی ہے۔ تنے کے اندر تقریبا
¿ سات میٹر تک صاف قسم کا بور اونچائی کے رُخ ہوتا ہے۔ اسکی
گرے سے ڈارک رنگ کی لکڑی ہوتی ہے۔ اس کے ایک ہی ڈنڈی پر چھوٹے سے دونوں اطراف کے نیم
جیسے ڈیزائن کے پتّے جو چمکدار سے سر سبز سے ہوتے ہیں۔ اس درخت کی دور سے ہی پہچان
کراتے ہیں۔
ابتدائی مسکن(ارتقائ) : بھارت، برما، بنگلہ دیش،
میں بڑھتی ہوئی سری لنکا، ملائیشیا اور پاکستان، ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل خطے، ، نیپال،
افغانستان، چین،سری لنکا اور پاکستان میں سندھ ، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور زیریں،
سرائے عالمگیر، مغرب جہلم دریا ۔ ۔اس نسل کا درخت عملی طور پر پورے انڈیا میں بارانی
سے نم دار علاقوں میں اور خزاں پت جھڑ بردار جنگلوں میں ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے
دیگر علاقوں میں بھی اُگایا جاتا ہے۔
شکل:گول یا بیضوی تاج نما قد: 15-20 میٹر قطر:0.57 تا0.86 سینٹی میٹر
پتے: برعکس کونہ پتے۔ 20-40 سینٹی میٹر طویل (میں
7.9-15.7) ۔ 3-8 سینٹی میٹر ( 1.2-3.1انچ
) طویل پتیاں ۔ پتے کی ڈنڈی مختصر ہیں. (سفید اور خوشبودار) پھول پھل elongate اور بیضوی ۔پتے:
کمپاو
¿نڈ ہیں،پتیاں 2.5 تا 7 سینٹی میٹر لمبی ، 4 سے
7 جوڑوں پرہر پتی ، چھال، بال سفید ہو جانا سیاہ ہے
پتّے:۔پتّے کمپاو
¿نڈ قسم کے اور
imparipinate ( ایک ہی ایکسز پر دونوں طرف ایک ایک کی قسم میں
جوڑے کی شکل میںپتّے نہ ہوں۔یعنی اُن میں ایکoddہو۔)
یہ پتّے چھوٹّے ہوتے ہیں۔
پھول:۔پھول کریم کلر یا پیلے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ہی
ایکسل پرگروپ کی صورت لگتے ہیں۔جو کہ لمبائی کے رُخ کو ہوتا ہے۔ یہ خوشبو دار ہوتے
ہیں۔ پھولوں کا رنگ:سفیدی مائل سبز پھول آنے کا وقت: اپریل۔مئی
۔پھول چھوٹے ہیں اور خوشبوشہد کی طرح ہے ،گھنے گچھے اور کے درمیان دکھائے جاتے ہیں
پھل : جون اور اگست میں پکتا ہے۔ . پھل ایک گودے
دار ۔ ایک مشکل شیل میں منسلک ایک بیج مشتمل
drupe. ہر ایک مانسل drupe1.5 لمبوترا، سبز ہے۔ پھل:۔پھل ایک سے دو سینٹی میٹر لمبا اور ایک بیج
کا حامل لٹکاو
¿ سا ہوتا ہے ۔ جس پر لکڑی نما شے کا سخت کوَر ہوتا ہے۔پھل
جون سے اگست کے دوران پک جاتے ہیں۔ اور اُن کا پیلے سا رنگ ہو جاتا ہے۔بیج بیضوی شکل
کے ہوتے ہیں۔ جس کے تیل بردار٬ موٹا ٬مواد سے بھرا cotyledoneہوتا ہے۔
جگہ کا انتخاب: زمین: زمین کے لحاظ سے نیم کے برداشت
خاصی ہے اور یہ ہر قسم کے زمین میں چاہے وہ خشک ،پتھریلی ،بھاری چکنی،کم گہری ،ہلکی
تھور زدہ،کنکر اور روڈ والی ہی کیوں نہ ہو پرورش پا سکتا ہے۔۔یہ کئی اقسام کی مٹّی
جس میں ریتلی٬ چکنی٬بلیک کاٹن سوائل وغیرہ کو شامل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کئی
اقسام کی مٹّی پر اُگ اور پرورش پا جاتا ہے۔ نیم کا درخت ہموار زمینوں پر٬سب سوائل
واٹر لیول علاقوں٬اور اچھی ڈرین ہوئی زمینوں پر آسانی سے اُگ آتا ہے۔ یہ0 to 40 deg Cٹیمپر یچر
تک برداشت کر لیتا ہے۔ اور1500میٹرسطح سمندر سے بلندیوںتک پنپ آتا ہے۔ یہ اُن علاقوں
میں بھی صحیح پنپ آتا ہے۔ جہاں بارش کی شرح سالانہ اوسط 130 mmتک رہتی ہے۔ یہ کافی حد تک خشک سالی بھی برداشت کر لیتا ہے۔
موسمی ضروریات:
نیم کا درخت قدرتی طور پر پاکستان ،ہندوستان،سری
لنکا،ملائیشیا،انڈونیشیا تھائی لینڈ اور برما کے خشک جنگلات میں پایا جاتا اور پاک
و ہند کے علاوہ افریقہ کے خشک علاقوں میں بھی اسے وسیع پیمانے پر کاشت کیا گیا ہے۔نیم
کے درخت کی ضروریات بہت محدودہیںاور کٹھن حالات میں بھی یہ خوب پھلتا ہے یہ 44 ڈگری
سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بھی نشو ونما پاتا ہے اور سخت گرمی برداشت کر سکتا ہے ۔اسے
1500-150 میٹر کی بلندی تک اگایا جا سکتا ہے قدرتی افزائش کے لئے اسے1150-150 ملی میٹر
سالانہ بارش درکار ہے لیکن یہ صرف 130 ملی میٹر 5 انچ سالانہ بارش والے علاقوں میں
بھی اگایا جا سکتا ہے اور طویل خشک موسم کو بھی یہ آسانی سے بر داشت کر سکتا ہے یہ
ہر قسم کی زمین میں چاہے وہ خشک ،پتھریلی،بھاری ،چکنی ،کم گہری ،ہلکی تھور زدہ ،کنکر
اور روڑ والی کیوں نہ ہو پھل پھول سکتا ہے ۔زیادہ نمی اور طغیانی کو بر داشت نہیں کرتا۔
ریگستان سے لے کر گیلے نمکین ماحول تک ہر قسم کی
زمین پر کاشت کیا جا سکتا ہے ۔ 8.5 تک پی ایچ۔، چکنی ، نمکین اور الکلی والی مٹی۔ مٹی
کی تقریبا تمام اقسام۔ گہری، اچھی طرح سوھا مٹی ، خشک، سٹونی، اتلی زمین ، کیلشیئم
والی مٹی، خشک سالی کے خلاف مزاحمت کے لئے جانا جاتا ہے . ، ذیلی مرطوب حالات ذیلی
بنجر علاقوں میں : کے ایک ابتدائی عمر میں کچھ سایہ بھی مستحکم ہے کہ ایک اعتدال روادار
درخت. اس پر اگتا ہے نمکین نہیں ہیں یا سیلاب ہے جس میں کمی سائٹس پانی کی میز سے
18 میٹر اوپر ہے
andwhere tonutrient امیر loams پر سے مختلف ہوتی ہیں، گرم اشنکٹبندیی اور ذیلی گرم مرطوب درجہ حرارت 45-1
ڈگری سینٹی گریڈکی حد ساتھ آب و ہوا. ایسا نہیں ہے اپنے قیام کو روکنے کے گا پالا ہارڈی
اور گھاس مقابلہ
کاشت:بیج ۔ بڑی عمر کے بیج اکثر نہیں اگتے ۔ بیج
ہر ممکن حد تک تازہ ہونا چاہئے. بیج زمین میں براہ راست بویا جا سکتا ہے. دو سے تین
بیج ڈھیلا مٹی میں گہرائی 1 سینٹی میٹر رکھی جا ئے . بڑی تعداد جب میں لگاناہو تو ،
سب سے پہلے برتن، ٹرے یا پلاسٹک کے گملوں میں کاشت کریں۔ 3 ماہ کے بعد ٹرانسپلانٹیشن
منتقلی کی جائے ۔ .سیڈ کم ویوہاریتا ہے اور اچھی طرح سے کی دکان نہیں ہے. یہ جمع کرنا
ضروری ہے یہ سمجھدار ہے اور ہر ممکن حد مجموعہ کے بعد جتنی جلدی لگائے۔ بیج , اور غیر
جنسی طریقے دونوں سے،یہ آسانی سے جھاڑی بن جاتی ہے۔
افزائش نسل:
نیم کی افزائش بیج اور پودوں سے کی جا سکتی ہے پکا
ہوابیج جولائی،اگست میں درختوں سے اکٹھا کرنے کے بعدکاشت کر دیا جاتا ہے ۔نیم کے ننھے
پودے کو سال ہلکے سائے کی فراہمی فائدہ پہنچاتی ہے نر سری اگانے کے کئے نیم کا تازہ
بیج،گملوں یا پولی تھیں کی تھلیوں میں لگالیں نیم کے درخت انتہائی خشک علاقوں میں مختصر
وقفہ کے کئے پتے گرا دیتا ہے وگرنہ یہ ہمیشہ سر سبز رہتا ہے اس کا پھل جون سے اگست
کے مہنیوں میں پھل پکتا ہے اور پکا ہوا پھل سبزی مائل زرد رنگ کا 0.5 انچ سے0.7 انچ
لمبا ہوتا ہے اس میں عموماََ ایک بیج ہوتا ہے ۔نیم کا بیج اپنی حیاتیاتی اہلیت یا قوت
نمو صرف 3-2 ہفتے تک قائم رکھ سکتا ہے۔
بیج کا حصول:
موسم بہار کے آخر میں نیم کے پرانے پتے جھڑے کے
ساتھ ساتھ نئے پتے نکلنے لگتے ہیں اور مارچ ،اپریل کے مہینے تک تمام نئے پتے آجاتے
ہیں،سفید رنگت کے چھوٹے چھوٹے پھول مارچ سے لے کر مئی کے مہینے تک نمودار ہوتے رہتے
ہیں جن میں شہد کی خوشبو آتی ہے اس کے بعد نیم کا پھل جون سے اگست تک پکتا ہے جو گچھوں
کی صورت میں ہوتا ہے ہر پھل میں ایک بیج ہوتا ہے چونکہ نیم کا بیج اپنی روئیدگی کی
اہلیت زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتا اس لئے اسے کامیابی سے اگانے کے لئے اس کا پکا
ہوا بیج درخت سے توڑنے کے بعد فوراََبعد نرسری میں اگانا چاہیے۔
نرسری کی تیاریاں:
آم اور فالسے کی طرح نیم کا بیج بھی تازہ لگایا
جاتا ہے چونکہ یہ سدا بہار درخت ہے اور عموماََ گاچی کے سمیت ہی لگایا جاتا ہے ،لہذا
اس کی نرسری پولی تھین کے لفافوں یا مٹی کے گملوں میں لگائی جا سکتی ہے لفافوں کو پتوںکی
ملی کھاد مٹی اور ریت سے بھر لیا جاتا ہے ہر لفافے مین ایک بیج رکھ کربیج کی موٹائی
جتنی مٹی ڈال دی جاتی ہے اور اس کے فوراََبعد فوارے سے پانی دے دیا جاتا ہے ۔نیم کا
بیج تقریباََ ایک ہفتہ بعد اگنا شروع ہو جاتا ہے اور یہ عمل تقریباََ 28 دن میں مکمل
ہو جاتا ہے خیال رہے کہ اگائی کے بعد غیر ضروری جڑی بوٹیاں لفافے میں سے صاف رکھی جائیں
ورنہ پودے مر جانے کا خطرہ ہوتا ہے ان ننھے پودوں کو کہر سے بچانے کا خیال ضرور رکھنا
چاہیے کیونکہ کہر میں ننھے پودے مر جاتے ہیں اس لئے پودوں کو ڈھانپنے کے علاوہ سردیوں
میں آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال رکھنا بھی نہایت ضروری
ہے کہ چھوٹے پودوں کو دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے کہ ساتھ اٹھنے والی
جڑی بوٹی کو تلف کر دیا جائے ایس اکرنے سے پودوں کو لفافوں میں موجود
مٹی سے خوراک بھی حاصل ہوتی ہے
یہ بیجوں کے ذریعے اُگایا جا سکتا ہے۔
بیج کے ذریعے افزائش:۔پھل جب پک جاتے توڑ لیے جاتے
ہیں۔ یا پھر درخت کے نیچے فرش سے اکٹھے کر لیے جاتے ہیں۔ مکمل کچل مسل کر پلپ کو نکال
دیتے ہیں۔بیجوں کو سایہ دار جگہ پر خشک کیا جاتا ہے، مکمل خشک ہونے پر ائیر ٹائٹ کنٹینروں
میں سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ ان بیجوں کی افزائش کے لیے عمر بہت تھوڑی یعنی 2 ہفتے
تک ہوتی ہے۔ افزائش کے عمل کو آسان کرنے کے لیے بیجوں کو 24
hrs کے لیے پانی میںبگھو کر رکھتے ہیں۔ اور چھلکا اُتا رلیتے
ہیں۔اس مقصد کے لیے تیز چاقو کا استعمال درست رہتا ہے۔ گھٹلی سمیت بھی بیج کو لگایا
جا سکتا ہے۔ لیکن افزائش کم رہتی ہے۔ بیج کو نرسری میں کیاریوں میں لگایا جاتا ہے۔
کیاریوں میں دریائی ریتلی مٹّی ڈال دی جاتی ہے۔ 15 to
20Cmتک ڈالی گئی مٹّی والی کیاری میںبیج2.5
to 5cm دور دور بوئے جاتے ہیں۔ بیج کو ایک سے دو سینٹی میٹر
گہرا بونا چاہیے۔ اور اُس پر نرم گیلی مٹی سے ڈھانک دینا چاہیے۔کیاری کو نم آلود رہنا
چاہیے۔ یعنی پانی دینے ساتھ ہی گوڈی کر دی جائے۔ لیکن کم پانی دیا جائے۔تاکہ جگہ کرونڈی
نہ جائے۔70 to 90 % بیج افزائش کرکے نکل آتے ہیں۔
پودے کی شجر کاری اور ما بعد احتیاطیں:۔ 7 to 10 cmاونچائی کے پودے
جس کی 15 cm لمبائی تک جڑ بن چکی ہوتی ہے۔ ان کو پولی
تھین کے لفافوںمیں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ فیلڈ میں ان پودوں کو ایک سے دو سال بعد لگایا
جاتا ہے۔ اور4.5 to 5.5 meterفاصلہ رکھا جانا چاہیے۔ پہلے5
to 6 years میں موسم گرما میں ایک دفعہ پانی دینے کی ضرورت پڑتی
ہے۔ اس کے یہ خود بخود درخت بنتے جاتے ہیں۔
پودے لگانے کا طریقہ:
نیم کا پودا لگانے کے تین طریقے ہیں ایک تو نرسری
میں تیار کئے گئے پودوں سے زمین میں گڑھا کھود کر لفافے کا پیندہ کاٹ اور پھر اس گڑھے
میں لفافہ رکھ کر اردگرد مٹی گڑھے میں ڈال کر پاو
¿ں سے اچھی طرح دبا دی جاتی ہے۔جس کے فوراََ بعد
پانی دے دیا جاتا ہے دوسرا طریقہ قلم سے ہے ایک سال کے پودے سے جڑ کا 6 انچ حصہ اور
تنے کا 3 انچ حصہ لے کر قلم بنا لی جاتی ہے جو براہ راست گیلی زمین میں لگا دی جاتی
ہے قلم لگانے سے پہلے لوہے کی سلاخ یا انگلی جتنی موٹی لکڑی سے زمین میں سوراخ کر لیا
جاتا ہے اور پھر اس میں قلم لگا دی جاتی ہے۔تیسرا طریقہ ہل چلا کر پانی دینے کے بعد
وتر کی صورت میں بیج کی براہ راست بیجائی کر دی جاتی ہے اور اس کے بعد زمین کو ایک
ہفتہ تک نم رکھا جاتا ہے جب تک بیج کی اگائی پوری نہ ہوجائے۔
پودوں کی افزائش:
پہلے سال کی بڑھت ذرا سست ہوتی ہے مگر آئندہ سالوں
میں مقابلتاََ زیادہ ہوتی ہے اس کی افزائش کے لئے جڑی بوٹیوں کی تلفی ضروری ہے یہ بات
اس مشاہدے میں آئی ہے کہ نیم کا پودا تیسرے سال تقریباََ 5 فٹ کا ہو جاتا ہے نیم کا
درخت اگر کاٹ لیا جائے اور زمین سے مڈھی نہ اکھاڑی جائے تو پھر سے شاخیں نکل آتی ہیں
ان شاخوں میں سے سیدھی اور بہتر شاخ رکھ کر باقی کاٹ دی جائیں تو اس شاخ سے دوبارہ
درخت تیار ہو جاتا ہے اس کے علاوہ اگر جڑیں زخمی کر دی جائیں تو وہاں سے بھی نیا پودا
تیار کیا جا سکتا ہے۔
نمایاں خصوصیات:نیم کے پیڑ صوبہ سندھ کے سرکاری درخت ہے اور سندھ کے تمام شہروں
میں بہت عام ہے، صوبہ سندھ بھر میں اس درخت لگانے کے لئے منصوبے جاری ہیں. . اس کا
پھل اور بیج نیم کے تیل کے ذریعہ ہیں. بڑھوتری قدرے سست ۔ درخت مٹی کی زرخیزی بڑھاتا
ہے ۔ اور اپنی خاص خوبی کی وجہ سے تیزابی مٹی کو نیوٹرل مٹی میں بدل دیتا ہے ۔ پانی
برقرار رکھنے کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے. ہلکی زمین یہ خاص طور پر ان لوگوں میں ایک
فارم جنگلات درخت کے طور پر صلاحیت رکھتا ہے
شاخ تراشی:
بیماریاں: چند کیڑے بیماری کا مسائل ہیں
آبپاشی:
پاکستان میں گرم علاقوں میں چونکہ بارش اوسطََ خاصی
کم ہے اس لئے آبپاشی کی ضرورت پڑتی ہے ۔البتہ ان جگہوںپر جہاں زیرزمین پانی کی سطح
قدرے بلند ہو آبپاشی کی ضرورت صرف چھوٹے پودوں کو ہی رہتی ہیں اس کے علاوہ نیم کے درخت
برسات سے پہلے کا گرم و خشک موسم بغیر نقصان اٹھائے برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پیداوار :آہستہ بڑھوتری ، اوسط MAI 8.5 کیو بک میٹر فی
ہیکٹر سالانہ
لکڑی کی خصوصیات:
دانہ : غیر متوازی ،کسی حد تک موٹا
رنگ : گیلی سفید ، سفید بھورا،سخت
کثا فت:
sg 0.68 ۔ کلوریز کی مقدار 4990کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی : بھاری،سخت،لچکدار۔
نیم کی بڑھت اور استعمال:
فرنیچر، چارے، لکڑی چھید کر اشیاءبنانے ، دواو
¿ں(ایک جور ہٹانےوالا کے طور پر چھوڑ دیتا ہے ایک
ٹائیفائیڈ کے علاج)، لکڑی، زراعت آلات اور کے طور ارکٹنین. (بیج سے) تیل ایک کیٹناشک،
کیڑے مار، طور پر مارکیٹنگ، اور ہے ۔ نیم کے پتے چاول ذخیرہ کرنے ،کیڑوں کی روک تھام
کرنے۔ الماری میں رکھے جاتے ہیں. مچھروں کو دور رکھنے کے لئے ۔ نرم ٹہنیاں اور پھول
سبزی کے طور پر ۔ بھوک بڑھانے کے طور پر۔ ترکاریاں۔ پروٹین کا ایک ذریعہ ہے۔ درخت سے
بنی مصنوعات ، دوائیں دو صدیوں سے استعمال کی گئی ہےں ۔. کرم کش ، اینٹی فنگل، زیانطس
کے علاج، بیکٹریا کش ، اینٹی وائرل، جلد کے امراض ۔ کے لئے مشروع ہے. نیم کا تیل ،
جگر کے بہتر خون بنانے ۔ زہریلے مادوں، اور خون میں شکر کی سطح کو متوازن کرنے کے لئے،
صحت مند بالوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ طویل مدتی استعمال گردوں یا جگر کو نقصان
پہنچا سکتا ہے اسقاط حمل ہو سکتا، بانجھ پن، اور کم بلڈ شوگر سبب بن سکتا ہے۔ نیم مصنوعی
ادویات کے ایک قدرتی متبادل کے ظور پر ، غیر پیسٹی سائیڈل کیڑے مار مینجمنٹ (NPM) میں ایک اہم جزو
ہے. نیم کے بیج پانی میں رات بھگو کر فصل پر اسپرے کیا جاتا ہے . . نیم کیک اکثر ایک
کھاد کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے.نیم تیل ، ماحول دوست اور اقتصادی ایجنٹ کے طور پر
دیمک کے حملے سے بچنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.
صابن، شیمپو، بالم اور کریم کے ، ٹوتھ پیسٹ ، کاسمیٹکس ۔ مسواک مسوڑھوں کی
سوزش کو کم کرنے۔ کار آمد گوند۔
نیم کا درخت خشک خطہ درختوں میں سے ایک بہت کار
آمد درخت ہے اس سدا بہار درخت کی چھتر گول،گھنا اور جڑیں لمبی ہوتی ہیں اسکی لکڑی قدرتی
طو ر پر دیمک اور گھن سے محفوظ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس کی لکڑی ،چھلکا ،گوند ،پتے
،پھول اور بیج الغرض ہر حصہ نہایت ہی کار آمد ہے فصلوں رہائشی علاقوں کے نقصان دہ کیڑوں
کو کنٹرول کرنے کے لئے کیمیائی دواو
¿ں کا استعمال اپنے ماحولیاتی نقائص کے باعث نا پسند
یدہ ہے اور کئی ممالک میں ترک کیا جا چکا ہے اور کیڑوں پر قابو پانے کے لئے پودوں کے
قدرتی اجزاءسے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ان پودوں میں نیم نہایت اہم ہے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بہتر زمین پر جہاں
آبپاشی بھی مناسب ہو 15 سال کی عمر میں نیم کا درخت تقریباََ4 فٹ لپیٹ کا ہو جاتا ہے
نیم کی لکڑی گھن اور اس قسم کے کیڑوںکے حملوں کی بھرپور مدافعت کی صلاحیت رکھتی ہے
یہ تعمیر ات کے کاموں اور فرنیچر تیار کرنے کے لئے بھی استعمال میں لائی جاتی ہے لکڑی
اچھی اقسم کا بالن اور کوئلہ بنانے کے کام آتی ہے۔
نیم کے بیج میں تیل کی شرح کا تناسب 40% ہے جو جلانے
اور مشینوں کو چکنار رکھنے میں استعمال ہو سکتا ہے تیل نکالنے کے بعد بچنے والی نیم
کھل بہترین کھاد تصور کی جاتی ہے اس کا تیل صابن اور جراثیم کش ادویات بنانے کی صنعت
کا ایک بہت اور اہم عنصر ہے اسکے بیجوں اور پتوں سے ایک خاص قسم کا کیمیائی مرکب حاصل
ہوتا ہے جو کیڑوں اور مچھروں وغیرہ کو دور رکھتا ہے ۔ اسکے پتوں کے اور بھی طبی فوائد
ہیں ۔
موجودہ دور میں نیم کے درخت کو اور بھی اہمیت حاصل
ہو گئی ہے کیونکہ اس سے کئی قسم کی کرم کش ادویات بنائی جا رہی ہیں ۔ بیج سے تیل نکالا
جاتا ہے جو بیکٹریا ، جرثومے ، اور کیڑے مکوڑوں کو مارنے میں استعمال ہوتا ہے ۔ غرضیکہ
نیم کے پتے، چھال، پھول، پھل، شاخیں اور لکڑی سبھی کارآمد ہیں ۔
لکڑی کا اوسط وزن 680 گرام فی کیوبک سینٹی میٹر
اور حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت 4990 کلو کیلری فی کلو گرام ہے ۔
۔اس کی چھال اور پتّے جلدی بیماریوں کے لیے شفاءبخش
ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں اس کی چھال پھلبہری ٬ ملیریا اورباری کابخار٬اندورنی و بیرونی
زخم٬معدے کے السر٬رسولی٬قے آنا٬انتڑی کے کیڑے٬اندرونی سینے وغیرہ کی جلن٬کھانسی اور
برونکائیٹس کی بیماریوں کی ادویات کے لیے مفید ہوتی ہے۔
اس کے پھول بھی اندرونی سینے و معدے کی وغیرہ کی
جلن٬قولنج٬بد ہضمی ٬انتڑی کے زخم اور جنرل معذوری وغیرہ کی ادویاتشکایات کے لیے استعمال
کیے جاتے ہیں۔اس کے بیج رسولیوں٬جذامکوڑھ٬جلدی امراض٬انتڑیوں کے زخم٬معدے کے السر٬قبض٬قبل
از پیدائش بیماریاں اور ذیا بطیس جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بیجوں
سے ایک تیل اخذ کیا جاتا ہے۔ جو کہ ٬جلدی عوارض٬انتڑی اور پیٹ کے رنگ نماءکیڑے٬کھجلیخارش٬مزمّن
ملیریا بخاراور جذام کے عوارض کے لیے مفید ہوتا ہے۔
السلام علیکم سر کیسے آپ
ReplyDeleteبہت عمدہ کام کیا ہے آپ نے آنے والی نسلوں کے لئے ایک سمندر ہے نباتات کے علم کے حوالے
اللہ تعالی آپکو اسکا اجر عظیم عطا فرمائے یارب آمین
دیگر سر کیسے ہم اس کام کو ایک انجمن کی صورت میں کر سکتے ہیں تاکہ اللہ کی مخلوق ہماری اس کوشش سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتی رہے یعنی میں یہ کام کرنا چاہتا ہوں کہ قریب ۲ لاکھ درخت نیم کے لگانا چاہتا ہوں اور اس کے دیرپا پروگرام تشکیل دینا چاہتا ہوں یعنی کہ نرسری لگا کر پھر اسکو ہر اسکا جگہ پر لگانا چاہتا ہوں جہاں مناسب ماحول میسر ہو مجھے آپکی رہنمائی کی ضرورت تاکہ ہم اپنے مشن کو چلا سکے اور پاکستان کو سرسبز بنا سکے ،شکریہ سلامت ہیں والسلام