Sunday, 17 May 2015

نباتاتی نام :بمبوسا بمبوس Botanical Name: Bambusa bambos


نباتاتی نام :بمبوسا بمبوس Botanical Name: Bambusa bambos
خاندان ©: پوایسی Family:Poaceae
انگریزی نام: کامن بمبو ، Indian Thorny Bamboo,Common Bamboo,Spiny bamboo
دیسی نام: بانس، کالک، کانٹا بانس، نال بانس Bans, Nal Bans Bans, Kalak, Kanta
ابتدائی مسکن(ارتقائ):جنوبی اور مشرقی ایشیا۔ بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، برما، تھائی لینڈ، لاو ¿س، Kampuchea، ویت نام اور چین
قسم:سدا بہار                                قد:20-24میٹر                             قطر: 10 - 18 سینٹی میٹر
ڈنٹھل: بانس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی، مضبوط ووڈی ڈنٹھل اوسط قطر 10 -18 سینٹی میٹر ۔ قد 20-30 میٹر کے درمیان. internodes بہت موٹی دیواروں کے ساتھ رنگ کے گہرے سبز رنگ کی ہیں. نوڈ تھوڑا سا سوجی ہوئی ہیں اور کچھ نیچے والی نوڈس مختصر فضائی جڑ پیدا کرتی ہیں۔
پتے: پتیاں ایک طویل نکیلے کونے کے ساتھ نیزہ کی شکل کی ہیں. ہر ایک مرکب پتے میں تقریبا 10 پتیاں ، فی پتی 15-30 سینٹی میٹر لمبی اور 8-15 ملی میٹرچو ڑی ۔ نوڈ ایک یا دو اطراف والی شاخوں کے ساتھ ایک مرکزی غالب شاخ پر مشتمل ہےں ۔ اور اکثر ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیںکانٹے دار چھوٹی شاخیں طویل اور wiry ہیں، اور عام طور پر زمین کی طرف جھکی ہوئی اوپری پتیدار شاخیں پنکھا نما بناتی ہیں۔ جن پر چھوٹے کانٹے ہوتے ہیں



پھولوں کا رنگ:                            پھول آنے کا وقت:
کاشت: سکرز یعنی زیرزمین تنوں ۔ رائیزوم یعنی زیربچہ سے
جگہ کا انتخاب:یہ ٹراپیکل علاقے کا پودا ہے - نیم مرطوب ۔ مرطوب آب و ہوا ،گہری ،دلدلی ،گہری زمینیں، دریا کے کناروں، ذرخیز ، نم مٹی کے ساتھ دریا کی وادیوں
کے ساتھ ساتھ سب سے بہتر اگتا ہے۔
نمایاں خصوصیات:اس کی کئی اقسام ہیں جو قد اور موٹائی کے حوالے سے مختلف ہیں ۔تیز بڑھوتری     
تعارف:      بانس گھاس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے عام طور سے اس کی1250 اقسام خیال کی جاتی ہیں جن کی لمبائی 6 انچ سے لیکر 100 فٹ تک بتائی جاتی ہے بانس کی دو اقسام خاص کر قابل ذکر ہیں ۔
(ا)اس قسم کے بانس کی جڑوں سے شگوفے نکل کر پودوں کے جھنڈ بن جاتے ہیں اس کی مندرجہ ذیل تین جنس ہیں۔
(i) BAMBUSA (ii) DENDROCALAMUS (iii) GVADUA
ٰیہ سب گرمی پسند ہیں سرد آب ہوا کو ہرگز برداشت نہیں کرتے ۔BAMBUSA خاندان کی بہت سی اقسام / نسلیں ہیں جن میں سے اکثر بیشتر افریقہ اور جاپان میں پائی جاتی ہے۔
(ب)دوسری قسم کے بانس کی جڑیں زیر زمین جال کی مانند پھیلتی ہیں ان پر نکلنے والے شگوفے سے صرف اور صرف ایک ہی پودا بنتا ہے جو کہ جھنڈ کی نسبت کافی فاصلہ ہر ہوتا ہے ان کو Single stem/culm بانس پکارا جاتا ہے اس کے بھی مندرجہ ذیل تین جنس ہیں۔
ARUNNDINARIA  (ii)OSTACHYS  (iii)MELOCANNA ( i)
ٰیہ بھی گرم خطے میں پائے جاتے ہیں پاکستان میں اس قسم کا بانس متعارف نہیں ہوا محولہ بالا اقسام ،ا ، او ر ،ب، کے درمیان بانس کا ایک اور خاندان ہے جسے CHUSQUEA کہا جاتا ہے یہ سطح سمندر سے کافی بلندی پر پایا جاتا ہے۔بانس صرف جنگل کا خود رو پودا ہی نہیں بلکہ اس کو انسانی تدبر اور وسائل سے بھی کاشت کیا جاتا ہے اسکی کاشت کا پھیلاو ¿ بڑی سرعت سے ساری دنیا میں عام ہوتا جارہا ہے ۔کیونکہ یہ کسی صورت میں ہر فرد بشر کے لئے مفید ہے اور پائیداری میں بے مثال ہے اس کی لکڑی تعمیراتی منصوبوں میں کام آتی ہے اس کے لمبے لمبے ستونوں (Poles )سے تہواروں پر سجاوٹی محرابیں بنائی جاتی ہیں کاغذ سازی میں استعمال ہوتا ہے اس سے پانی کے پائپ ،ٹوکریاں ،کپڑے اور بے شمار روز مرہ استعمال کی سجاوٹی / زیبائشی اشیاءتیار کی جاتی ہیں۔چونکہ اس کی لکڑی میں لچک ہوتی ہے اس لئے اس کو زرا سا تاو ¿ دے کر موڑنا بڑا ہی آسان طریقہ ہے لہٰذا اس کو خم دے کر بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسے حقے کی نڑیاں وغیرہ بنائی جاتی ہیں مزید یہ کی اس کی تازہ اور نرم نرم سرسوں کی طرز کی گندلیں بطور خوراک استعمال کی جاتی ہیں جبکہ اس کا رس اور گودا دوا سازی کے کام آتا ہے۔
بانس کی کاشت / افزائش:
بانس کی کاشت / افزائش کے لئے بالعموم مندرجہ ذیل قابلِ عمل ہیں ۔
(1 )بیج                      (2)چشم دار جڑRhizomes                            (3) شاخ تراشے
(1 )بیج:                     بانس کا پودا زندگی میں ایک دفعہ بار آور ہوتا ہے اور پھر مر جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی افزائش بذریعہ بیج ایک طویل اور صبر آزما کام ہے مزید یہ کہ اس کا بیج بالعموم دو ماہ تک پیداواری قوت و صلاحیت برقرار رکھتا ہے مگر جدید سائینٹفک حفاظتی اقدامات اختیار کرنے سے پیداواری قوت دو سال تک برقراررکھا جا سکتا ہے ۔مگر یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ،جونہی پودے سے بیج حاصل ہو ہر ممکن جلدی بو دینا چاہیے بیج بوائی سے دو تین ہفتے بعد اگنا شروع کر دے گا پودوں کی نقل و حمل میں آسانی کے پیش نظر بیج کی بوائی (Polythene Tubes) پلاسٹک کی تھلیوں میں (جن کا سائز 9x6 انچ ہو)یا مٹی کے گملوں میں کرنی چاہیے اچھے اگاو ¿ کے لئے پلاسٹک یا گملوں میں دریائی مٹی (Silt ) یعنی بھل ڈالنی چاہیے۔
جھلسا دینے والی گرمی اور سخت سردی سے بچاو ¿ کی خاطر تھلیوں / گملوں کو سایہ کے نیچے منتقل کرنا ضروری ہے بوائی سے ایک سال بعد پودوں کو کھیت میں 4 تا6 میٹر کے فاصلہ پر گڑھے نکال کر منتقل کر دینا چاہیے ،پودوں کے اچھے جڑاو ¿ اور مناسب پرورش کے لئے بھل ور گلی سڑی کھاد گڑھوں میں ضرور ڈالنی چاہیے اس طرح بانس کا پودا بفضلِ خدا4-3 سال تک پختگی کی حالت کو پہنچ جائے گا ،بانس کی کاشت کے لئے جہاں مناسب قسم کا خیال واجبی ہے وہاں زمین کی موزونیت کو ملحوظ رکھنا بھی ازبس ضروری ہے مثلاََ درج ذیل جدول میں ہر قسم کے بالمقابل موزوں زمین ظاہر کی جاتی ہے۔
                نام بانس                                                                                     قسم زمین
1 ۔Bambusa polymorpha                      اس قسم کے بانس کے لئے نم دار اور زرخیز زمین جو کہ پانی جلد جذب کر سکے در کار                                                                   ہے۔
2 ۔Dendrocalamus strictus                   یہ بانس خشک زمین میں بھی پروان چڑھ سکتا ہے۔
(لاٹھی بانس)
3 ۔Bambusa tulda                                  اس کے لئے خالصتاََ دریائی مٹی(بھل۔Silt )سے بنی ہوئی زمین درکار ہے ندی                                                                             نالوں کے ساتھ پایا جاتا ہے۔
4 ۔Dendrocalamus longispthus            اس قسم کا بانس دریائی رقبہ جہاں زیادہ نمی ہو پایا جاتا ہے۔
5 ۔Bambusa arundinacex (کنڈیالہ)         بانس ندی نالوں کے کنارے اور نم دار میرا قسم کی زمین میں خوب پروان چڑھتا ہے
6 ۔Dendrocalamus hamiltoni                               اس کے لئے خالصتاََ دریائی مٹی (بھل)سے بنءہوئی زمین درکار ہے ندی نالوں
(کالا بانس )یا چواڑی                                                      کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔
7 ۔Thyrsostachys oliveri                       اس کے لئے خالصتاََ دریائی مٹی (بھل)سے بنءہوئی زمین درکار ہے ندی نالوں
(ڈنگوری)                                                                    کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔
8 ۔Bambusoides                                    اس کے لئے خالصتاََ دریائی مٹی (بھل)سے بنءہوئی زمین درکار ہے ندی نالوں
(ساوا )                                                                       کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔
بانس کی کاشت کے لئے کلر اٹھی زمین مناسب نہیں۔
2 ۔قلمات/ یا چشم دار جڑیں(RHIZOMES)
ؓبانس کے پودے اپنی عمر کے ساتھ ساتھ زیر زمین جڑوں کا جال بچھا دیتا ہے ان پر چشم دار گانٹھیں ہوتی ہیں جہاں سے شگوفے نکل کر پودے بنتے رہتے ہیں۔ان جڑوں کو قلمات (چشمدارجڑیں)یا(RHIZOMES)کا نام دیا گیا ہے اگر ان کو اوائل موسم بہار میں بصدا حتیاط پودے سے الگ الگ کر کے کسی دوسری جگہ لگا دیا جائے تو اس طریقہ سے بھی افزائش ممکن ہے (RHIZOMES)دراصل جڑ کی بجائے زیر زمین تنا ہوتا ہے ۔(RHIZOMES) کی کٹائی کرتے وقت مٹی ہٹا کر جڑوں کو ننگا کر لینا چاہیے ۔پھر تعین کر لیا جائے کہ ان قلمات کی عمر واقعی چھ ماہ ایک سال ہے تو اس کے بعد قلم کو کسی تیز دھار آلے کے ذریعے ترچھا گھاو ¿ دے کر درخت سے الگ کر دیا جائے تو کٹائی کے وقت احتیاط یہ برتنی چاہیے کہ قلمات زخمی نہ ہونے پائیں۔دوسرے یہ کہ گھاو ¿ اوپر سے نیچے کی طرف ترچھا ہو ۔تیسرے یہ کہ جس قدر ممکن ہو زیر زمین سرے کے ساتھ جڑیں رہنے دیں پھر6-4 میٹر کے فاصلے پر بنائے ہوئے گڑھے جو کہ دریائی مٹی (بھل۔Silt )اور گلی سڑی کھاد کے آمیزہ سے پر ہوں میں منتقل کر دیا جائے جڑوں کو موزوں و مو ¿ثر طریقہ سے اس قدر زمین میں دبا دیا جائے کہ تنا بھی سطح زمین سے نیچے چلا جائے مگر تنے کا سرا شمال کی جانب 40-60 ڈگری درجے کا زاویہ بناتا ہو اس طریقے سے قلمات کو کو سورج کی گرمی سے بچانا محل نظر ہے۔اگر گرمی کو مزید کم کرنا ہو تو تنے کے سرے پر گوبر لگا دینا چاہیے اس طریقہ کاشت کا فائدہ یہ ہے کہ Rhizomes یعنی قلمات بیج کی نسبت با آسانی وافر مقدار میں دستیاب ہوسکتی ہیں اور بانس کی کاشت و افزائش کی رفتار تیز کی جا سکتی ہے لیکن اس طریقہ کاشت کے نقصان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ممکن ہے جس مادری پودے بانس سے قلمات حاصل کی گئی ہوں وہ بار آور حالت میں آئے اور پھر مر جائے۔اس کا اثر تمام قلمی پودوں پر پڑے گا۔اور وہ سب بار آور حالت میں آکر مر جائیں گے ،جبکہ بذریعہ بیج لگائے ہوئے درختوں کی لمبی عمر کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
شاخ تراشے:(Branch Cuttings)
شاخ تراشوں کے ذریعے کاشت کا انحصار زمین کی زرخیز اور گرد پیش کے ساز گار ماحول پر ہے زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے (Bed Nursery) چوڑی چوڑی وٹوں پر لگانے کی سفارش کی جاتی ہے نرسری کے بیڈ کی مٹی (Silt)بھل+گلے سڑے گوبر اور پتوں کی کھاد کا آمیزہ ہونی چاہیے تاکہ پانی جلد جذب کر سکے اور پودے کو کافی غذا فراہم کرے مناسب آبپاشی بھی ضروری ہے اس طریقہ کاشت سے 20-40% تک کامیابی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
دیکھ بھال:
بانس کا پودا زرخیز بھر بھری جلد جذب کرنے والی میرا زمین میں بخیر و خوبی پپنتا ہے بروقت کاشت،گوبر اور پتوں کی گلی سڑی کھاد تو سونے پر سہاگے کا کام دے گی۔نو کاشتہ پودوں کو تو ہفتے عشرے بعد باقاعدگی سے پانی دینا چاہیے زمین کی خاصیت اور ہیئت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور آبپاشی میں کمی بیشی بھی ممکن ہے لیکن مثال کے طور پر دریاو ¿ں اور ندی نالوں کے نواح میں لگائے ہوئے پودوں کو دیر بعد پانی درکار ہوگا جبکہ دور افتادہ جگہوں پر پودوں کو جلدی آبپاشی کی ضرورت ہوگی ۔اسی طرح جہاں زیر زمین پانی نزدیک ہو گا اور نمی بالعموم برقرار رہتی ہوگی ۔وہاں بانس کو بھی پانی کم درکار ہو گا جبکہ اس کے برعکس خشک علاقوں میں لگائے ہوئے پودوں کو نسبتاََ پانی جلدی دینا چاہیے۔لیکن ضرورت سے زیادہ پانی نہ دیں وگرنی پھپھوندی حملہ کر دے گی ۔کھیتوں کو باقاعدگی کے ساتھ جڑی بوٹیوں سے پاک و صاف رکھنا چاہیے تاوقتیکہ پودے بڑھ کر پھیلاو ¿ سے ان پر پوری طرح غالب نہ آجائیں مناسب گوڈی نشوونما کے لئے مفید ہے۔پہاڑی علاقوں اور سطح مرتفع میں لگائے پودوں کے گرد مٹی چڑھانا چاہیے تاکہ بارش کی وجہ سے جڑ ننگی نہ ہونے پائے وگرنہ پودے کی بڑھت رک جائے گی میدانی علاقوں میں ایسا کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ،بانس کے پودوں کو سو ¿روں ،چوہوں اور سیہ (خارپشت)کے حملوں سے محفوظ رکھنا چاہیے اگر کسی قسم کی بیماری لاحق ہوجائے تو قریب ترین دفاتر محکمہ جنگلات/ زراعت سے رجوع کریں۔
برداشت:
جڑوں کا پھیلاو ¿ باہر کی جانب مسلسل جاری رہتا ہے ان پر چشم دار گانٹھیں بنتی رہتی ہیں جن سے شگوفے نکل کر پودے بنتے ہیںپودوں کے اس بیرونی حلقے کو چال(Chal)کہتے ہیں ان کو ہر گز کاٹنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ قلمات کی فراہمی میں معاونت کرتے ہیں سیدھے پودوں کو تین سال کے عرصہ تک نہیں کاٹنا چاہیے اس سے قبل یہ پختہ نہیں ہوتے۔جو بانس کے تنے پختہ ہو جاتے ہیں۔ان میں لچک آجاتی ہے اور ایک جانب جھک جاتے ہیں ان کا رنگ اور پتے بھی پختگی کی حالت کا پتہ دیتے ہیں۔بانس کا پودا 3-4 سال کی مدت ک جوبن میں آجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ طاقت پکڑ لیتا ہے ۔البتہ بارآور حالت تک پہنچنے میں کافی عرصہ درکار ہوتا ہے تمام تر معمر ناقص اور گئے گذرے پودے کاٹ دینے چاہئیں ۔تا کہ مناسب اور صحت مند پودوں کو بڑھنے کا موقع ملے کٹائی کے دوران یہ بات بطور خاص یاد رکھنی چاہیے کہ بقیہ پودوں کو گنجان نہ چھوڑیں ۔اور حتی الامکان یکساں فاصلے پر رکھیں ۔جن پودوں پر بار آور ہونے کے اثرات نظر آئیں ن کاٹیں ۔تا کہ آئندہ کے لئے بیج حاصل کر سکیں ۔
جیسا کہ اوپر مفصل ہے کہ بانس کی کٹائی3-4 سال سے پہلے ہرگز نہیں کرنی چاہیے ۔اس کے برعکس اگر پہلے کاٹ لیا جائے تو لکڑی پچک جائے گی چونکہ لکڑی نرم ہوگی اس لئے چنداں کار آمد نہ ہوگی ایسے تنوں کو بلکل کاٹنا نہیں چاہیے جن پر ابھی پتوں کے پردے بنے ہوئے ہوں۔پودوں کو پہلے جھنڈ ہی سے کاٹنا چاہیے ۔کٹائی کا بہترین موسم جولائی کا موسم ہے یا پھر موسم برسات کے بعد کا عرصہ جب سردی کی آمد آمد ہوتی ہے اس وقت بانس میں نشاستے کے اجزاءکم ہوتے ہیں۔
لکڑی خشک کرنے کا عمل:
کٹائی کے بعد لکڑی کو خشک کرنے کے لئے دو ماہ تک پانی میں رکھنا چاہیے تا کہ پہلے سے موجود کیڑا یا دیمک مر جائے ۔اس عمل کے لئے گدلا پانی زیادہ موزوں ہے اس طریقہ سے سکھائے ہوئے بانس میں آیندہ کے لئے کیڑوں کے حملوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے دوسرے یہ کہ پائیداری اور مضبوطی عود کر آتی ہے ۔لہٰذا بڑے یقین کے ساتھ بھاری کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
حجم اور پیداواریاستعداد:
بانس کی فروخت عام طور سے رقبہ یا پودوں / تنوں کی تعداد کی بنیاد پر ہوتی ہے تین سال کے دوران بانس کے نوکاشتہ پودے سے 12 تا60 لڑے Culms یا(Poles)تک حاصل ہونے کی اطلاعات ملی ہیں ۔
بارآوری:
جیسا کہ پہلے مفصل ہے کہ بانس سدا بہارگھاس کے خاندان سے متعلق ہے اس کی زندگی کا آغاز بیج کے اگنے سے ہو تا ہے اور پھل پھول دینے پر تمام ہو جاتا ہے اس دوران جس قدر اس سے قلمات حاصل کرکے افزائش کی جا چکی ہوں گی تمام پودے بیک وقت بار آوری کی حالت میں آ جائیں گے اور بیج دیتے ہی مر جائیں گے ۔ایک محتاط انداز ے کے مطابق بانس کا پودا30-40 سال لگ بھگ بیج دیتا ہے عام طور پر دسمبر اور جنوری میں پھول نکلتے ہیں بیج فروری سے اپریل اور بسا اوقات جون تک بیج بن جاتا ہے ۔بانس کے جدید بیج بالمعموم دو ماہ تک قوت روئیدگی برقرار رکھتے ہیں۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ بیج حاصل کرتے ہی بو دینا چاہیے تاکہ ضائع نہ ہو ۔پشاور میں بانس کا بار آور حالت میں آنے کیلئے عمر کا تعین کرنے سے متعلق بڑا کام کیا گیا ہے لیکن ابھی تک کو ئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی یوں بھی ہوتا ہے کہ مختلف عمروں کے پودے بیک وقت پھول لیتے ہیں۔
مشورے:                    بانس تیزی سے بڑھنے والا پودا ہے بڑے قد کے بانس کو (قلمات یا پولی تھین ٹیوب میں تیار شدہ پودوں) 20x20 فٹ کے فاصلے پر اور پتلے سائز کے پودوں کو 10x10 فٹ کی دوری پر باغ کی طرح لگانا چاہیے اس لئے کے اوائل موسم بہار موزوں ترین موسم ہے بانس کا بیج چونکہ جلد خراب ہو جاتا ہے اس لئے جوں ہی دستیاب ہو زمین خوب تیار کر کے پولی تھین ٹیوب میں مٹی (بھل)اور گلی سڑی کھاد کا آمیزہ ڈال کر فوراََ لگا دینا چاہیے۔جو حضرات تجارتی پیمانے پر بانس لگانے کے حق میں نہ ہوں وہ کم از کم اتنا بانس تو ضرور کاشت کریں جو ان کی اپنی ضرورت کو پورا کر سکے۔
پاکستان میں بانس کی کاشت کا ایک نظر جائزہ:                      قیام پاکستان سے پہلے ہی Dendrocalamus strictus (بانس) کا ایک تجرباتی ذخیرہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں موجود تھا جو آج بھی محفوظ جنگل froest Reserve کے طور پر C.D.A اسلام آباد کے زیر انتظام ہے یہ بانس ہو شیار پور اور ڈیرہ دون (ہندوستان)کے بانس کے مقابلہ میں گھٹیا ہے عین ممکن ہے اس وجہ سے یہ سرکاری یا نجی سطح پر افزائش کے لئے مر غوب نہ ہو سکا۔Dendrocalamus hamiltonii (بانس) گورنر ہاو ¿س لاہور کی رونق تو بنا لیکن اس سے استفادہ کرنے کے لئے عام لوگوں سے متعارف نہ کرایا گیا۔غالباٰاس لئے کہ خطہ کی ضروریات مشرقی پاکستان سے پوری کی جاتی تھیں تا ہم محکمہ جنگلات (پنجاب) نے کوئی 20-15 سال قبل لاپور اور چیچہ وطنی میں بانس کی نرسریاں اگائیں اور عوام میں امدادی قیمت پر پودا جات تقسیم کئے چونکہ یہ بانس بھی (اولذکر قسم) گھٹیا تھا۔اس لئے زمیندار حضرات میں کاشت کے لئے مقبول عام نہ ہو سکا اس طرح بانس کاشت/ افزائش میں نا قابلِ ذکر پیش رفت نہ ہو سکی ۔یہ جمود 1970ء تک طاری رہا۔جب1971ء میں ملک کا مشرقی حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا تو ساتھ ہی پاکستان میں بانس کا قحط پڑ گیا ۔منڈی میں قیمت یک لخت بڑھ گئی ضروریات پوری کرنے کے لئے مجبوراََ دستِ طمع دوسروں کے ہاں دراز کرنا پڑا ۔گویا ہماری بے توجہی اور بے نیازی نے نوشتہءدیوار مجبور کر دیا ۔سو کثیر زرمبادلہ کے تصرف سے بانس درآمد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو بد قسمتی سے آج جاری ہے بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی  © ©،،ضرورت ایجاد کی ماں ہے،، کے مصدق بانس کی پیداوار میں خود کفیل ہونے کے خیال نے جنم لیا جسے پورا کرنے کے لئے عوامی حلقے اور جنگلات حب الوطنی کے ساتھ رُوبہ عمل ہیں لہٰذا آج بھی پتوکی (ضلع قصور)سرگودھا،فیصل آباد،ساہیوال اور جھنگ کے اضلاع میں نجی سطح پر بانس کے چھوٹے چھوٹے ذخیرے اور پود گاہیں دیکھنے میں آتے ہیں۔
Dendro Calamus (کالا بانس)Bambusa Aurdinace D.Bambosides (ساوا بانس) اور نیم بانس کی اقسام اچھی ہیں یہ مضبوط اورقد آور ہیں اس کے علاوہ ڈنگوری ،لاٹھی بانس کی بھی کاشت کی جارہی ہے۔

استعمال :اپنی مخصوص گھانٹھوں کی وجہ سے کثیر استعمال رکھتا ہے،سر فرست زیبائشی استعمال،موسیقی کے آلات،پردے اور باغات کے لیے ستون ،کھونٹیاں،چوبییں وغیرہ بنانے کے لئے استعما ل کیا جاتا ہے، برتن ، باڑیں، گھر کی تعمیر، سہاروں، rafters، thatching ، چھت سازی، دستکاری ،فن کی اشیاء ، ٹوکری بنانے، دخش اور تیر ،
فر نیچر، سچل لکڑی، اور رافٹنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خام مال کاغذ گودا پینل کی مصنوعات ، ٹہنیاں اور بیج کھانے کے کابل ہیں ۔ پتیاں چارہ اور دوا کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں ۔


No comments:

Post a Comment