Tuesday, 7 July 2015

Bombax malabaricum


نباتاتی نام :بمبکس مالا بریکم Botanical Name: Bombax malabaricum
خاندان ©:بمبیسی Family:Bombaceae
انگریزی نام: سلک کاٹن ٹری Silk cotton tree
دیسی نام:سمبل،سمل Sumbul ,Simal
ابتدائی مسکن(ارتقائ): آسٹریلیا           ڈسٹری بیوشن:۔انڈیا میں یہ منطقہ یا ٹراپیکل اور سب منطقہ یاسب ٹراپیکل علاقوں میں1500 میٹر تک بلندی والی جگہوں پر پایا جاتا
قسم:پت جھاڑ
شکل:                         قد:30-40 میٹر ۔ قطر میں 80 سینٹی میٹر
 پھولوں کا رنگ:سرخ اور نارنجی                            پھول آنے کا وقت:فروری۔مارچ ،بڑے سائز کے٬سُرخ رنگ کے اور ریشمی سے ہوتے ہیں۔
پھل:۔یہ ایک کیپسول کی طرح بیضوی سی شے ہوتی ہے۔ اس میں لا تعداد بیج ہوتے ہیں۔ جو کہ گھاڑھے ریشم جیسے میٹیریل سے بھرے ہوتے ہیں
 شاخیں: باقاعدہ دائر ہ میں ہیں ۔ چھال ہلکی بھوری یا سرمئی اور کافی ہموار۔تنا اور شاخیں بڑے مخروطی کانٹوں پر مشتمل ہیں.
 پتے: بہت بلند و بالا درخت جو پت جھڑ کے موسم میں پتّے جھاڑتا ہے۔ اور کانٹے دار ہوتا ہے۔ٹہنییوںپر پتّوں کا گچھا ایک ہی جگہ سے نکلنے والا درخت ہوتا ہے۔5-7 نکیلی پتیاں، 10-20 سینٹی میٹر طویل، leathery اور ہموار. ۔پتّے کافی بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ پتےّ بغیر کسی رویںبال کے ہتھیلی نما ہوتے ہیں اورمرکّبات سے بھرپور ہوتے ہیں۔اور ایک پتّوں کے گروہ میں 5 to7 پتیاں ہوتی ہیں۔
کاشت:بیج بڑھوتری:۔یہ پودا بیج اور vegetative means دونوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ (i) بیج کا طریقہ:۔پکّے ہوئے پھل کے کیپسول مارچ اور مئی کے دنوں میں پھٹنے سے قبل توڑے جاتے ہیں۔اُن کو خشک کیا جاتا ہے۔ توڑنے کے بعد کاٹن کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔اس مقصد کے لیے بیج کو علیحدہ کرنے کے لیے اُن کو gunny bagsمیں بند کر کے چھڑیوں سے پیٹا جاتا ہے۔ بیج کاٹن کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ کاٹن کونکال لیتے ہیں۔ اور بیج باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ 1 to 2 years کے لیے کارآمد رہتے ہیں۔ تازہ بیجوں کو ٹریٹمینٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔انھیں مئی کے اواخر میں اونچی کیاریوں میں لگا دیا جاتا ہے۔ پودے نکلنے کی شرح14 to 70 % تک ہوتی ہے۔اور 30 to 35 دن میںپودے پھوُٹناشروع ہو جاتے ہیں۔(ii) غیر جنسی طریقہ :۔اچھے جوان درخت کی جوان قدرے لمبی قلموں کو seradix B3 کے ساتھ ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ اور قدرے گیلی اوپر درج شدہ مٹی کی اونچی کیاریوں میں لگا دیتے ہیں۔ یہ تجربہ مارچ کے ماہ میں موزوں رہتا ہے۔ جب پنیری5 cm ہو جاتی ہے۔ اُسے مٹّی بھرے پولی تھین کے لفافوں میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ پھر جولائی اگست میں pits میں شفٹ کر دیتے ہیں۔ جن کی اطراف30 cm کی ہوتی ہیں۔
جگہ کا انتخاب:گہری ریتلی مَیرا زمین جو کہ گرینائٹ اور ایسی ہی جگہوں سے حاصل کی گئی ہو۔ اور اُس میں کچھ ریت شامل کی گئی ہو۔اور کچھ نمی داخل کی گئی ہو٬اس قسم کے درخت کے پودے کو اُگانے کے لیے انتہائی مفید رہتی ہے۔
نمایاں خصوصیات:بہت سے پرندوں کے ساتھ، مقامی جنگلات کی زندگی اور شہد کی مکھیوں کے لئے بہت پرکشش ۔
شاخ تراشی:
بیماریاں:
 لکڑی نرم ہونے کی وجہ سے انتہائی مفید ہے۔ پانی کے اندر استعمال ک لیے پائیدار۔ کہیں بھی دوسرے سے پانی کے نیچے ہے۔ تعمیر کا کام میں مقبول ہے، لیکن پلا ئی ود، ماچس اور کلیوں کی تیاری کے لیے بہت اچھا اور قیمتی ہے۔ سانچے، کشتیاں ، یا دیگر ڈھانچے ۔
اس کے مضبوط تنے کی لکڑ ی ٹمبرکے لئے مفید ہے۔ اس کی لکڑی بہت نر م ہونے کی وجہ سے بہت مفید ہے. ، لیکن پائیدار نہیں۔ کہیں بھی دیگر پانی کے تحت سے. تو اس کی تعمیر کے کام کے لئے مقبول ہے، کشتیاں اور یا پانی میںاستعمال کے ضروری ڈھانچے کو بنانے کے لئے بہت اچھا ہے۔ پلائیووڈ، میچ باکس اور لاٹھی، سانچوں، کی تیاری کے لئے قیمتی ہے۔
 پھول 6 سے 7 انچ طویل ہیں اور 7 انچ وسیع ہیں. وہ شاخوں کے سروں پر یا اس کے قریب اکیلے یا گروپ میں ہیں. پھول پانچ ، سرخ رنگ، یا کبھی کبھی سفید پنکھڑیوں پر مشتمل ہوتے ہیں.
 پھل، ساخت ایک گیند کی طرح . یہ کپاس کی طرح روئی دار سامان سے بھرے ہیں. یہ پھل پکایا ، کھایا اور اس سے اچار بھی بنایا جاتا ہے۔روئی تکیے، صوفے، اور سرہانے کے بھرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے.
 جڑیں اسہال، پیچش، menorrhagia، کسیلا کے علاج میں اور زخموں کے لئے استعمال کی جاتی ہےں. گوند پیچش، hemoptysis، پلمونری تپ دق، انفلوئنزا، جلن، menorrhagia اور انتررکپ میں مفید ہے. بارک زخموں کی شفا یابی اور خون کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. پھول کسیلی اور جلد کی مشکلات اور haemorrhoids کے لئے اچھے ہیں. بیج سوزاک اور دائمی cystitis کے علاج میں مفید ہیں۔پھل calculus affections ، دائمی سوزش اور مثانے اور گردے کے السر میں مفید ہیں.
بیج زہریلا ہوتا ہے۔
اس کے بیج سوزاک اور اندرونی پرانی پیشاب کی نالی کی سوزش ے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس کی نرم لکڑی ماچس کی تیلیاں بنانے کے کام آتی ہے۔ اور اس کی پھل کی روئی تکیوں اور گدیلوں کی بھرائی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
پیداوار :  بڑی تیز بڑھوتری ، اوسط MAI   35cm کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ
لکڑی کی خصوصیات
دانہ : سیدھا ،
رنگ : سفید ی مائل


کثا فت : بہت ہلکا ۔ کلوریز کی مقدار 4900کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی : کمزور
استعمال:۔ اس کی جڑیں پیچش٬انفلوئینز٬اندونی جلن کے احساس٬اندونی خون کا بہنا٬خون کی صفائی جیسے امراض کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔bark(اندرونی لکڑی)زخموں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس شے کا پیسٹ بنا کر بیرونی بڑے کٹ والے زخموں کو بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ bark ایک گوند خارج کرتی ہے۔ جسے موچرس کہتے ہیں۔ جو اندرون معدہ کو ملیّن کرتی ہے٬جراثیم کش ہوتی ہے۔ اور پیچش اور انفلوئینزا کے لیے مفید ہوتی ہے۔کانٹوں سے بھی ایک پیسٹ کریم تیار کی جاتی ہے۔ جو جلد خاص طور پر چہرے کا رنگ بحال کرتی ہے۔
پھول بھی جلد کی تکالیف کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پھل بھی اندرونی جلن اور گردے و مثانے کی اندرونی جلن کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
سیمل
تعارف: سیمل گرم مگر بارش والے علاقوں میں پیدا ہو تا ہے۔لیکن مرطوب استوائی آب و ہوا میں یہ زیادہ بہتر طور پر اگتا اور بڑھتا ہے ۔پہاڑی علاقوں میں یہ9سو سے 12سو میٹر یا اس سے زائد بلندی پر بھی پایا جاتا ہے۔لیکن سیمل کا طبعی مسکن ایسے علاقے ہیں جہاں کا درجہ حرارت(سایہ میں)زیادہ سے زیادہ 95فارن ہایئٹ سے120فارن ہائیٹ تک ہو اور سالانہ بارشیں عام طور پر7500سینٹی میٹر یا اس سے زائد ہو۔
یہ 40میٹر تک بلندی والا درخت ہے جس کے پتے موسم خزاں میں جھڑ جاتے ہیں اس کا تنا سیدھا سلنڈر نماہو تا ہے۔اس کی شاخیں جو ایک دائرے میں پھوٹتی ہیں۔ افقی انداز میں چاروں طرف پھیلی ہوتی ہیں۔بڑے درخت کا نچلا حصہ فطری طور پر کف دار ہو تا ہے ۔سیمل کی چھال ہموار خاکستری رنگ کی موٹی ہوتی ہے۔نو عمر درخت اور شاخیں مخروطی کانٹوں سے بھری ہوتی ہیں۔اس کے پتے پانچ سے سات چھوٹے چھوٹے پتوں میں منقسم ہوتے ہیں۔سیمل کے درخت کا گھراو ¿ کافی بڑا ہو تا ہے۔کف دار حصے سے اوپر اس کے تنے کا لپیٹ 3.5میٹر تک ہو تا ہے۔سیمل جب عام جنگلاتی ماحول میں پروان چڑھتا ہے تو اس کی نچلی شاخیں جلد ہی گر جاتی ہیںیوں اس کا سیدھا اور صاف تنا24سے30میٹر تک لمبا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات ،خصوصاََ ایسے علاقوں میں جو خشک ہوں،سیمل کے پتے دسمبر کے آغاز میں نکلتے ہیں اور کچھ عرصے میں زرد ہو کر گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔دسمبر کے آخر تک سارے پتے جھڑ جاتے ہیں۔بعض درخت ،خصوصاََجو مرطوب علاقوں میں ہوں،مارچ تک پتوں سے لدے رہتے ہیں۔نئے پتے مارچ یا اپریل میں نکلتے ہیں۔اس کی بڑی بڑی ،گول،بھورے رنگ کی کلیاں دسمبر میں ہی نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔جنوری اور فروری میں گہرے سرخ پھول کھلتے ہیں جو بعض اوقات مارچ تک اپنی بہار دکھاتے ہیں۔سیمل کا پھل بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔یہ لمبوترا مگر بیضوی،سخت10سے15سینٹی میٹر لمبا اور پانچ خانوں والا ہوتا ہے۔اپریل اور مئی میں پکتا ہے سیمل کا پھل ابھی درخت کے ساتھ ہی لگا ہو تا ہے کہ پک کر کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔بعض اوقات یہ زمین پر گرنے کے بعد ہی کھلتا ہے ۔سیمل کے پھل میں کافی تعداد میں بیج ہوتے ہیں جو سفید ریشمی بالوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔چنانچہ انہیں تیز ہوا آسانی سے اڑا کر دور دور تک لے جاتی ہے۔جن دنوں سیمل کا پھل پکتا ہے فضا ریشمی بالوں سے اٹی رہتی ہے یہ بال میلوں دور تک اڑتے ہیں۔سیمل کے بیج روغنی ہوتے ہیں اگر ان کو احتیاط سے ذخیرہ کیا جائے تو ان کی قوت نمو کچھ عرصہ قائم رہ سکتی ہے۔سیمل کے بیج زمین پر اکٹھے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن بہتر یہ ہے کہ سیمل سے اس وقت پھل اتار لیا جائے جب وہ پک کر کھلنے کے بالکل قریب ہو۔پھل کو دھوپ میں ڈال دیا جائے۔تو وہ جلد ہی پھٹ جاتا ہے سیمل کی روئی سے بیجوں کو الگ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے بیجوں کو روئی سمیت بڑی سی بالٹی میں ڈال دیا جائے۔اور پھر دونوں ہاتھوں سے ایک مدھانی کو تیزی سے بالٹی میں چلائیں اس طرح بیج سیمل کی روئی سے الگ ہو کر نیچے جمع ہو جائیںگے۔
عادات واطوار: سیمل کے درخت کو زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ معمولی کہر کا تو مقابلہ کر سکتا ہے ۔مگر زیادہ کہر سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔سیمل کا پودا اگر ایک مرتبہ اچھی طرح جڑ پکڑ لے تو اس کی چھال اسے آگ سے کافی حد محفوظ رکھتی ہے ۔اگر اوائل عمر میں سیمل کے پودے کو سطح زمین سے کاٹ دیا جائے تو دوبارہ اس کی شاخیں نکل آتی ہیں۔لیکن زیادہ عمر ہونے کی صورت میں اس کی (Coppice)کی اہلیت کم ہو جاتی ہے۔اس کی جڑ زخمی ہو جائے تو یہ وہاں سے دوبارہ پھوٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
نرسری کی تیاری: عموماََ محکمہ جنگلات یا فارمزنرسری سے سیمل کی قلمیں آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں اور یہی قلمیںعوام کی ضروریات پو را کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیںتا ہم بیج سے اس کے پودے تیار کرنا خاصا آسان ہے۔اور زمیندار بھی اپنی ضرورت کے مطابق محدود پیمانے پر اس کی نرسری تیار کر سکتے ہیں۔سب سے پہلے اس چیز پر توجہ دینی چاہیے کہ بونے کے لئے استعمال کیا جانے والا بیج بھی پختہ بھی ہو اور تازہ نھی ہو کیونکہ ملا جلا بیج استعمال کرنے سے ناصرف پودوں کی کم تعداد حاصل ہو گی بلکہ کیاریوں میں جگہ پوری طرح سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں اور گھاس پھوس کی بڑھت زیادہ ہو گی۔اس مقصد کے لئے بیج کو پھٹک کر کھوکھلے اور سکڑے ہوئے بیج الگ کر لئے جائیں اوراس بات کا یقین کر لیا جائے کہ بیج ایک سال سے پرانا نہ ہو۔بہتریہی ہے کہ مئی میںاکٹھا کیا گیا بیج اسی سال نرسری میں استعمال کر لیا جائے۔سیمل کی نرسری لگانے سے پیشتر زمین کو ہل چلا کر تیار کیا جائے اس میں گوبر کی کھاد اور نہر کی بھل بھی ڈال لی جائے تو بہتر ہو گا۔اس کے بعد زمین کو کراہ سے ہموار کر کے ڈیڑھ فٹ چوڑی وٹیں بنائی جائیں جن کے درمیان آبپاشی کے لئے نالیاں موجود ہوں۔سیمل کا بیج پوری وٹوں کے کناروں پر قطار کی صورت میں ڈال دیا جائے۔نالیوں میںآبپاشی اس طریقے سے کرنی چاہیے کہ بیج والی مٹی نم رہے۔وٹوں کے کناروں پر لگائے گئے بیج تقریباََ سات سو یوم بعد اگ آتے ہیں۔جون میں اچھی زمین پر لگائی نرسری کے پودے آنے والے موسم برسات میں ہی شجرکاری کے لئے کام آسکتے ہیںاگر انہیں کہر سے بچایا جائے۔
پودا جات لگانے کا طریقہ: سیمل کی شجرکاری دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔سیمل لگانے کا معیاری طریقہ قلموں سے ہی ہے۔بہر حال پوراپودا بھی جڑوں سمیت اکھاڑ کر گڑھے میں لگایا جاسکتا ہے۔اگر پودے سے قلمیں بنانی مقصود ہوں تو شاخ کا 8سینٹی میٹر حصہ اور جڑکے22سینٹی میٹر حصہ کو کاٹ کر بنائی جاسکتی ہیں۔یہ قلم جسکی کل لمبائی30سینٹی میٹر اور موٹائی تقریباََ2سینٹی میٹر ہو گی۔22سینٹی میٹر گہرے سوراخ میں جو نمدار مٹی میں لوہے کی سلاخ سے بنایا جاتا ہے لگائی جاتی ہے قلم زمین میں لگانے کے بعد سوراخ کے گردکی مٹی دبادی جاتی ہے۔سیمل نہری زمینوں میں سے پانی کے کھالوں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ لگایا جاتا ہے پودوں یا قلموں کا درمیانی فاصلہ مناسب رکھنا چاہیے کیونکہ سیمل تیز بڑھت کرنے والے درخت ہیں۔اور بہت قریب لگانا فائدہ مند ثابت نہ ہو گا دو قلموں کا درمیانی فاصلہ عموماََ4میٹر رکھا جاتا ہے نہری علاقوں میں سیمل کی بڑھت خاصی تیز ہو تی ہےاور خصوصاََ نرم اور گہری زمین بہتر رہتی ہے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سیمل کے پودے کی بڑھت پہلے سال نسبتاََ کم ہو تی ہے اور عمر کے ساتھ اس کی بڑھت میں تیزی آجاتی ہے۔ماہ جون سے اگست تک بڑھنے کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔سخت زمین سیمل کی نشو ونما پر خاصا منفی اثر ڈالتی ہے۔سیمل کی فصل کو کہر کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں کہر پڑتا ہے یہ پودا زمین کی سطح تک مر جاتا ہے مگر اس میںگھبرانے کی بات نہیںہے کیونکہ آنے والے بہار کے موسم میں اس پودے کے مڈھ سے نئی شاخیں نکل آئیں گی۔اس سلسلے میں بہتر یہ ہو گا کہ جون میں لگائی گئی نرسری کے پودے موسم بہار میں لگائے جائیں جن کے نتائج بہتر ہوں گے۔اگر قلم کی بجائے نرسری کے پودے لگانے مقصود ہوں تو یہ مارچ کے مہینے میں لگانے چاہیئں جب ان پودوں پر پتے نہ ہوں مگر اس بات کا یقین کر لیجئے کہ پودے کو پانی باقاعدگی سے ملتا رہے تا کہ مٹی نم رہے۔
افزائش:
پودایا قلم لگانے کے بعد اس کی نگہداشت کا وقت آتا ہے ۔پانی ہر پودے کی ضرورت ہو تی ہے ۔مگر پانی اس قدر نہ دیا جائے جو زمین پر کھڑا رہے۔اس سے پودا مرجانے کا خدشہ ہو تا ہے ۔اس بات کا تعین کر لیں کہ مٹی نم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیم زدہ زمین پر سیمل کی کاشت ممکن نہیں اگر سیمل برسات میں لگایا گیا ہے تو پہلی بارش کے بعد پودے یا قلم کے اردگرداگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کر دیںتاکہ پودا اپنی صحیح نشوونماپانے اورسورج کی روشنی پودے تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچے ۔جڑی بوٹیوں کی تلفی مناسب وقت کے بعد کرتے رہنا چاہیے۔تاکہ پودا اتنا بڑا ہو جائے کہ اسے ان جڑی بوٹیوں نقصان نہ پہنچے۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایسی جگہ جڑی،بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے پودے کی بڑھت عام زمین سے دو گنی ہوتی ہے۔اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ اس پودے پر جس کے اردگرد جڑی بوٹیاں نہ ہوں کہر کا اثر بھی کم ہو تا ہے۔قدرتی طور پر سیمل کو شاخ تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ درمیان والے تنے کے گرد ایک چکر کی صورت میں نکلنے والی نچلی شاخیں ایک ہی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کے بعد خودبخود خشک ہو جاتی ہیں۔یوں بھی کسی قسم کے درخت کے لئے بلاضرورت شاخ تراشی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کا بڑا بُرا اثر پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ بے احتیاطی سے کی ہوئی شاخ تراشی پودوں پر کیڑوں،بیماریوں کے حملے کا باعث بن سکتی ہے۔البتہ وہ پودے جو کہ دو یا دو سے زیادہ سیدھے بڑھنے والے تنے پیدا کر دیں ان میں سب سے سیدھے تنے کو بچا کرموسم سرما میں باقی تینوں کو کسی تیز دھار آلے سے کاٹ دیا چاہیے۔پودے کوShoot borer سے بچانے کے لئے اسے صحت مند رکھنا ضروری ہے۔
استعمالات: سیمل کی لکڑی کمرشل پلائی وینئیر(Veneer)دروازے،ماچس کی تیلیاں،جوتوں کی ایڑیاں اور کریٹ بنانے کے کام آتی ہے۔سیمل کا ریشہ تکیوں کے بھرنے کے کام آتا ہے۔چھال کے اندرونی حصہ کے ریشوں کے رسے بنائے جاتے ہیں۔سیمل کی جڑوں میں پروٹین،دوسری جڑوں والی زرعی فصلوں کے برابر ہوتی ہے البتہ کیلیشم مقابلتاََ زیادہ ہوتا ہے۔سیمل کی جڑیں ادویاتی تاثیرکی بھی حامل ہوتی ہیں،پھول اور پتے چارہ کے کام آتے ہیںمثال کے طور پر خرگوش سیمل کے نومولود تنے شوق سے کھاتے ہیںچوہے،سور اور خارپشت اس کی جڑوں کو کھانا پسند کرتے ہیں۔لکڑی کا اوسط وزن5200گرام فی کیوبک سینٹی میٹر اور حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت4900کلوکیلوری فی کلو گرام ہے۔
معاشیات: سیمل عام طور پر کھالوں اور راستوں کے کنارے پر لگائے جاتے ہیں۔جہاں پر ان کی بڑھت خاصی بہتر ہوتی ہے۔قطاروںکی صورت میں لگائے گئے سیمل تقریباََ دس سال کی عمر میں فی درخت ایک ہزار روپے سے پندرہ سو روپے مالیت کے ہو جاتے ہیںسیمل کو زرعی شجرکاری میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اسے15فٹ15x فٹ کے فاصلے پر لگا کر درمیانی رقبہ میں دو تین سال تک مختلف اقسام کی زرعی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔اس رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
سیمل
تعارف: سیمل گرم مگر بارش والے علاقوں میں پیدا ہو تا ہے۔لیکن مرطوب استوائی آب و ہوا میں یہ زیادہ بہتر طور پر اگتا اور بڑھتا ہے ۔پہاڑی علاقوں میں یہ9سو سے 12سو میٹر یا اس سے زائد بلندی پر بھی پایا جاتا ہے۔لیکن سیمل کا طبعی مسکن ایسے علاقے ہیں جہاں کا درجہ حرارت(سایہ میں)زیادہ سے زیادہ 95فارن ہایئٹ سے120فارن ہائیٹ تک ہو اور سالانہ بارشیں عام طور پر7500سینٹی میٹر یا اس سے زائد ہو۔
یہ 40میٹر تک بلندی والا درخت ہے جس کے پتے موسم خزاں میں جھڑ جاتے ہیں اس کا تنا سیدھا سلنڈر نماہو تا ہے۔اس کی شاخیں جو ایک دائرے میں پھوٹتی ہیں۔ افقی انداز میں چاروں طرف پھیلی ہوتی ہیں۔بڑے درخت کا نچلا حصہ فطری طور پر کف دار ہو تا ہے ۔سیمل کی چھال ہموار خاکستری رنگ کی موٹی ہوتی ہے۔نو عمر درخت اور شاخیں مخروطی کانٹوں سے بھری ہوتی ہیں۔اس کے پتے پانچ سے سات چھوٹے چھوٹے پتوں میں منقسم ہوتے ہیں۔سیمل کے درخت کا گھراو ¿ کافی بڑا ہو تا ہے۔کف دار حصے سے اوپر اس کے تنے کا لپیٹ 3.5میٹر تک ہو تا ہے۔سیمل جب عام جنگلاتی ماحول میں پروان چڑھتا ہے تو اس کی نچلی شاخیں جلد ہی گر جاتی ہیںیوں اس کا سیدھا اور صاف تنا24سے30میٹر تک لمبا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات ،خصوصاََ ایسے علاقوں میں جو خشک ہوں،سیمل کے پتے دسمبر کے آغاز میں نکلتے ہیں اور کچھ عرصے میں زرد ہو کر گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔دسمبر کے آخر تک سارے پتے جھڑ جاتے ہیں۔بعض درخت ،خصوصاََجو مرطوب علاقوں میں ہوں،مارچ تک پتوں سے لدے رہتے ہیں۔نئے پتے مارچ یا اپریل میں نکلتے ہیں۔اس کی بڑی بڑی ،گول،بھورے رنگ کی کلیاں دسمبر میں ہی نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔جنوری اور فروری میں گہرے سرخ پھول کھلتے ہیں جو بعض اوقات مارچ تک اپنی بہار دکھاتے ہیں۔سیمل کا پھل بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔یہ لمبوترا مگر بیضوی،سخت10سے15سینٹی میٹر لمبا اور پانچ خانوں والا ہوتا ہے۔اپریل اور مئی میں پکتا ہے سیمل کا پھل ابھی درخت کے ساتھ ہی لگا ہو تا ہے کہ پک کر کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔بعض اوقات یہ زمین پر گرنے کے بعد ہی کھلتا ہے ۔سیمل کے پھل میں کافی تعداد میں بیج ہوتے ہیں جو سفید ریشمی بالوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔چنانچہ انہیں تیز ہوا آسانی سے اڑا کر دور دور تک لے جاتی ہے۔جن دنوں سیمل کا پھل پکتا ہے فضا ریشمی بالوں سے اٹی رہتی ہے یہ بال میلوں دور تک اڑتے ہیں۔سیمل کے بیج روغنی ہوتے ہیں اگر ان کو احتیاط سے ذخیرہ کیا جائے تو ان کی قوت نمو کچھ عرصہ قائم رہ سکتی ہے۔سیمل کے بیج زمین پر اکٹھے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن بہتر یہ ہے کہ سیمل سے اس وقت پھل اتار لیا جائے جب وہ پک کر کھلنے کے بالکل قریب ہو۔پھل کو دھوپ میں ڈال دیا جائے۔تو وہ جلد ہی پھٹ جاتا ہے سیمل کی روئی سے بیجوں کو الگ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے بیجوں کو روئی سمیت بڑی سی بالٹی میں ڈال دیا جائے۔اور پھر دونوں ہاتھوں سے ایک مدھانی کو تیزی سے بالٹی میں چلائیں اس طرح بیج سیمل کی روئی سے الگ ہو کر نیچے جمع ہو جائیںگے۔
عادات واطوار: سیمل کے درخت کو زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ معمولی کہر کا تو مقابلہ کر سکتا ہے ۔مگر زیادہ کہر سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔سیمل کا پودا اگر ایک مرتبہ اچھی طرح جڑ پکڑ لے تو اس کی چھال اسے آگ سے کافی حد محفوظ رکھتی ہے ۔اگر اوائل عمر میں سیمل کے پودے کو سطح زمین سے کاٹ دیا جائے تو دوبارہ اس کی شاخیں نکل آتی ہیں۔لیکن زیادہ عمر ہونے کی صورت میں اس کی (Coppice)کی اہلیت کم ہو جاتی ہے۔اس کی جڑ زخمی ہو جائے تو یہ وہاں سے دوبارہ پھوٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
نرسری کی تیاری: عموماََ محکمہ جنگلات یا فارمزنرسری سے سیمل کی قلمیں آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں اور یہی قلمیںعوام کی ضروریات پو را کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیںتا ہم بیج سے اس کے پودے تیار کرنا خاصا آسان ہے۔اور زمیندار بھی اپنی ضرورت کے مطابق محدود پیمانے پر اس کی نرسری تیار کر سکتے ہیں۔سب سے پہلے اس چیز پر توجہ دینی چاہیے کہ بونے کے لئے استعمال کیا جانے والا بیج بھی پختہ بھی ہو اور تازہ نھی ہو کیونکہ ملا جلا بیج استعمال کرنے سے ناصرف پودوں کی کم تعداد حاصل ہو گی بلکہ کیاریوں میں جگہ پوری طرح سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں اور گھاس پھوس کی بڑھت زیادہ ہو گی۔اس مقصد کے لئے بیج کو پھٹک کر کھوکھلے اور سکڑے ہوئے بیج الگ کر لئے جائیں اوراس بات کا یقین کر لیا جائے کہ بیج ایک سال سے پرانا نہ ہو۔بہتریہی ہے کہ مئی میںاکٹھا کیا گیا بیج اسی سال نرسری میں استعمال کر لیا جائے۔سیمل کی نرسری لگانے سے پیشتر زمین کو ہل چلا کر تیار کیا جائے اس میں گوبر کی کھاد اور نہر کی بھل بھی ڈال لی جائے تو بہتر ہو گا۔اس کے بعد زمین کو کراہ سے ہموار کر کے ڈیڑھ فٹ چوڑی وٹیں بنائی جائیں جن کے درمیان آبپاشی کے لئے نالیاں موجود ہوں۔سیمل کا بیج پوری وٹوں کے کناروں پر قطار کی صورت میں ڈال دیا جائے۔نالیوں میںآبپاشی اس طریقے سے کرنی چاہیے کہ بیج والی مٹی نم رہے۔وٹوں کے کناروں پر لگائے گئے بیج تقریباََ سات سو یوم بعد اگ آتے ہیں۔جون میں اچھی زمین پر لگائی نرسری کے پودے آنے والے موسم برسات میں ہی شجرکاری کے لئے کام آسکتے ہیںاگر انہیں کہر سے بچایا جائے۔
پودا جات لگانے کا طریقہ: سیمل کی شجرکاری دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔سیمل لگانے کا معیاری طریقہ قلموں سے ہی ہے۔بہر حال پوراپودا بھی جڑوں سمیت اکھاڑ کر گڑھے میں لگایا جاسکتا ہے۔اگر پودے سے قلمیں بنانی مقصود ہوں تو شاخ کا 8سینٹی میٹر حصہ اور جڑکے22سینٹی میٹر حصہ کو کاٹ کر بنائی جاسکتی ہیں۔یہ قلم جسکی کل لمبائی30سینٹی میٹر اور موٹائی تقریباََ2سینٹی میٹر ہو گی۔22سینٹی میٹر گہرے سوراخ میں جو نمدار مٹی میں لوہے کی سلاخ سے بنایا جاتا ہے لگائی جاتی ہے قلم زمین میں لگانے کے بعد سوراخ کے گردکی مٹی دبادی جاتی ہے۔سیمل نہری زمینوں میں سے پانی کے کھالوں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ لگایا جاتا ہے پودوں یا قلموں کا درمیانی فاصلہ مناسب رکھنا چاہیے کیونکہ سیمل تیز بڑھت کرنے والے درخت ہیں۔اور بہت قریب لگانا فائدہ مند ثابت نہ ہو گا دو قلموں کا درمیانی فاصلہ عموماََ4میٹر رکھا جاتا ہے نہری علاقوں میں سیمل کی بڑھت خاصی تیز ہو تی ہےاور خصوصاََ نرم اور گہری زمین بہتر رہتی ہے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سیمل کے پودے کی بڑھت پہلے سال نسبتاََ کم ہو تی ہے اور عمر کے ساتھ اس کی بڑھت میں تیزی آجاتی ہے۔ماہ جون سے اگست تک بڑھنے کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔سخت زمین سیمل کی نشو ونما پر خاصا منفی اثر ڈالتی ہے۔سیمل کی فصل کو کہر کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں کہر پڑتا ہے یہ پودا زمین کی سطح تک مر جاتا ہے مگر اس میںگھبرانے کی بات نہیںہے کیونکہ آنے والے بہار کے موسم میں اس پودے کے مڈھ سے نئی شاخیں نکل آئیں گی۔اس سلسلے میں بہتر یہ ہو گا کہ جون میں لگائی گئی نرسری کے پودے موسم بہار میں لگائے جائیں جن کے نتائج بہتر ہوں گے۔اگر قلم کی بجائے نرسری کے پودے لگانے مقصود ہوں تو یہ مارچ کے مہینے میں لگانے چاہیئں جب ان پودوں پر پتے نہ ہوں مگر اس بات کا یقین کر لیجئے کہ پودے کو پانی باقاعدگی سے ملتا رہے تا کہ مٹی نم رہے۔
افزائش:
پودایا قلم لگانے کے بعد اس کی نگہداشت کا وقت آتا ہے ۔پانی ہر پودے کی ضرورت ہو تی ہے ۔مگر پانی اس قدر نہ دیا جائے جو زمین پر کھڑا رہے۔اس سے پودا مرجانے کا خدشہ ہو تا ہے ۔اس بات کا تعین کر لیں کہ مٹی نم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیم زدہ زمین پر سیمل کی کاشت ممکن نہیں اگر سیمل برسات میں لگایا گیا ہے تو پہلی بارش کے بعد پودے یا قلم کے اردگرداگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کر دیںتاکہ پودا اپنی صحیح نشوونماپانے اورسورج کی روشنی پودے تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچے ۔جڑی بوٹیوں کی تلفی مناسب وقت کے بعد کرتے رہنا چاہیے۔تاکہ پودا اتنا بڑا ہو جائے کہ اسے ان جڑی بوٹیوں نقصان نہ پہنچے۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایسی جگہ جڑی،بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے پودے کی بڑھت عام زمین سے دو گنی ہوتی ہے۔اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ اس پودے پر جس کے اردگرد جڑی بوٹیاں نہ ہوں کہر کا اثر بھی کم ہو تا ہے۔قدرتی طور پر سیمل کو شاخ تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ درمیان والے تنے کے گرد ایک چکر کی صورت میں نکلنے والی نچلی شاخیں ایک ہی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کے بعد خودبخود خشک ہو جاتی ہیں۔یوں بھی کسی قسم کے درخت کے لئے بلاضرورت شاخ تراشی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کا بڑا بُرا اثر پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ بے احتیاطی سے کی ہوئی شاخ تراشی پودوں پر کیڑوں،بیماریوں کے حملے کا باعث بن سکتی ہے۔البتہ وہ پودے جو کہ دو یا دو سے زیادہ سیدھے بڑھنے والے تنے پیدا کر دیں ان میں سب سے سیدھے تنے کو بچا کرموسم سرما میں باقی تینوں کو کسی تیز دھار آلے سے کاٹ دیا چاہیے۔پودے کوShoot borer سے بچانے کے لئے اسے صحت مند رکھنا ضروری ہے۔
استعمالات: سیمل کی لکڑی کمرشل پلائی وینئیر(Veneer)دروازے،ماچس کی تیلیاں،جوتوں کی ایڑیاں اور کریٹ بنانے کے کام آتی ہے۔سیمل کا ریشہ تکیوں کے بھرنے کے کام آتا ہے۔چھال کے اندرونی حصہ کے ریشوں کے رسے بنائے جاتے ہیں۔سیمل کی جڑوں میں پروٹین،دوسری جڑوں والی زرعی فصلوں کے برابر ہوتی ہے البتہ کیلیشم مقابلتاََ زیادہ ہوتا ہے۔سیمل کی جڑیں ادویاتی تاثیرکی بھی حامل ہوتی ہیں،پھول اور پتے چارہ کے کام آتے ہیںمثال کے طور پر خرگوش سیمل کے نومولود تنے شوق سے کھاتے ہیںچوہے،سور اور خارپشت اس کی جڑوں کو کھانا پسند کرتے ہیں۔لکڑی کا اوسط وزن5200گرام فی کیوبک سینٹی میٹر اور حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت4900کلوکیلوری فی کلو گرام ہے۔
معاشیات: سیمل عام طور پر کھالوں اور راستوں کے کنارے پر لگائے جاتے ہیں۔جہاں پر ان کی بڑھت خاصی بہتر ہوتی ہے۔قطاروںکی صورت میں لگائے گئے سیمل تقریباََ دس سال کی عمر میں فی درخت ایک ہزار روپے سے پندرہ سو روپے مالیت کے ہو جاتے ہیںسیمل کو زرعی شجرکاری میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اسے15فٹ15x فٹ کے فاصلے پر لگا کر درمیانی رقبہ میں دو تین سال تک مختلف اقسام کی زرعی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔اس رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
سیمل
تعارف: سیمل گرم مگر بارش والے علاقوں میں پیدا ہو تا ہے۔لیکن مرطوب استوائی آب و ہوا میں یہ زیادہ بہتر طور پر اگتا اور بڑھتا ہے ۔پہاڑی علاقوں میں یہ9سو سے 12سو میٹر یا اس سے زائد بلندی پر بھی پایا جاتا ہے۔لیکن سیمل کا طبعی مسکن ایسے علاقے ہیں جہاں کا درجہ حرارت(سایہ میں)زیادہ سے زیادہ 95فارن ہایئٹ سے120فارن ہائیٹ تک ہو اور سالانہ بارشیں عام طور پر7500سینٹی میٹر یا اس سے زائد ہو۔
یہ 40میٹر تک بلندی والا درخت ہے جس کے پتے موسم خزاں میں جھڑ جاتے ہیں اس کا تنا سیدھا سلنڈر نماہو تا ہے۔اس کی شاخیں جو ایک دائرے میں پھوٹتی ہیں۔ افقی انداز میں چاروں طرف پھیلی ہوتی ہیں۔بڑے درخت کا نچلا حصہ فطری طور پر کف دار ہو تا ہے ۔سیمل کی چھال ہموار خاکستری رنگ کی موٹی ہوتی ہے۔نو عمر درخت اور شاخیں مخروطی کانٹوں سے بھری ہوتی ہیں۔اس کے پتے پانچ سے سات چھوٹے چھوٹے پتوں میں منقسم ہوتے ہیں۔سیمل کے درخت کا گھراو ¿ کافی بڑا ہو تا ہے۔کف دار حصے سے اوپر اس کے تنے کا لپیٹ 3.5میٹر تک ہو تا ہے۔سیمل جب عام جنگلاتی ماحول میں پروان چڑھتا ہے تو اس کی نچلی شاخیں جلد ہی گر جاتی ہیںیوں اس کا سیدھا اور صاف تنا24سے30میٹر تک لمبا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات ،خصوصاََ ایسے علاقوں میں جو خشک ہوں،سیمل کے پتے دسمبر کے آغاز میں نکلتے ہیں اور کچھ عرصے میں زرد ہو کر گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔دسمبر کے آخر تک سارے پتے جھڑ جاتے ہیں۔بعض درخت ،خصوصاََجو مرطوب علاقوں میں ہوں،مارچ تک پتوں سے لدے رہتے ہیں۔نئے پتے مارچ یا اپریل میں نکلتے ہیں۔اس کی بڑی بڑی ،گول،بھورے رنگ کی کلیاں دسمبر میں ہی نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔جنوری اور فروری میں گہرے سرخ پھول کھلتے ہیں جو بعض اوقات مارچ تک اپنی بہار دکھاتے ہیں۔سیمل کا پھل بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔یہ لمبوترا مگر بیضوی،سخت10سے15سینٹی میٹر لمبا اور پانچ خانوں والا ہوتا ہے۔اپریل اور مئی میں پکتا ہے سیمل کا پھل ابھی درخت کے ساتھ ہی لگا ہو تا ہے کہ پک کر کھلنا شروع ہو جاتا ہے۔بعض اوقات یہ زمین پر گرنے کے بعد ہی کھلتا ہے ۔سیمل کے پھل میں کافی تعداد میں بیج ہوتے ہیں جو سفید ریشمی بالوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔چنانچہ انہیں تیز ہوا آسانی سے اڑا کر دور دور تک لے جاتی ہے۔جن دنوں سیمل کا پھل پکتا ہے فضا ریشمی بالوں سے اٹی رہتی ہے یہ بال میلوں دور تک اڑتے ہیں۔سیمل کے بیج روغنی ہوتے ہیں اگر ان کو احتیاط سے ذخیرہ کیا جائے تو ان کی قوت نمو کچھ عرصہ قائم رہ سکتی ہے۔سیمل کے بیج زمین پر اکٹھے کئے جاسکتے ہیں۔لیکن بہتر یہ ہے کہ سیمل سے اس وقت پھل اتار لیا جائے جب وہ پک کر کھلنے کے بالکل قریب ہو۔پھل کو دھوپ میں ڈال دیا جائے۔تو وہ جلد ہی پھٹ جاتا ہے سیمل کی روئی سے بیجوں کو الگ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے بیجوں کو روئی سمیت بڑی سی بالٹی میں ڈال دیا جائے۔اور پھر دونوں ہاتھوں سے ایک مدھانی کو تیزی سے بالٹی میں چلائیں اس طرح بیج سیمل کی روئی سے الگ ہو کر نیچے جمع ہو جائیںگے۔
عادات واطوار: سیمل کے درخت کو زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ معمولی کہر کا تو مقابلہ کر سکتا ہے ۔مگر زیادہ کہر سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔سیمل کا پودا اگر ایک مرتبہ اچھی طرح جڑ پکڑ لے تو اس کی چھال اسے آگ سے کافی حد محفوظ رکھتی ہے ۔اگر اوائل عمر میں سیمل کے پودے کو سطح زمین سے کاٹ دیا جائے تو دوبارہ اس کی شاخیں نکل آتی ہیں۔لیکن زیادہ عمر ہونے کی صورت میں اس کی (Coppice)کی اہلیت کم ہو جاتی ہے۔اس کی جڑ زخمی ہو جائے تو یہ وہاں سے دوبارہ پھوٹنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
نرسری کی تیاری: عموماََ محکمہ جنگلات یا فارمزنرسری سے سیمل کی قلمیں آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں اور یہی قلمیںعوام کی ضروریات پو را کرنے کے لئے کافی ہوتی ہیںتا ہم بیج سے اس کے پودے تیار کرنا خاصا آسان ہے۔اور زمیندار بھی اپنی ضرورت کے مطابق محدود پیمانے پر اس کی نرسری تیار کر سکتے ہیں۔سب سے پہلے اس چیز پر توجہ دینی چاہیے کہ بونے کے لئے استعمال کیا جانے والا بیج بھی پختہ بھی ہو اور تازہ نھی ہو کیونکہ ملا جلا بیج استعمال کرنے سے ناصرف پودوں کی کم تعداد حاصل ہو گی بلکہ کیاریوں میں جگہ پوری طرح سے استعمال نہ ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں اور گھاس پھوس کی بڑھت زیادہ ہو گی۔اس مقصد کے لئے بیج کو پھٹک کر کھوکھلے اور سکڑے ہوئے بیج الگ کر لئے جائیں اوراس بات کا یقین کر لیا جائے کہ بیج ایک سال سے پرانا نہ ہو۔بہتریہی ہے کہ مئی میںاکٹھا کیا گیا بیج اسی سال نرسری میں استعمال کر لیا جائے۔سیمل کی نرسری لگانے سے پیشتر زمین کو ہل چلا کر تیار کیا جائے اس میں گوبر کی کھاد اور نہر کی بھل بھی ڈال لی جائے تو بہتر ہو گا۔اس کے بعد زمین کو کراہ سے ہموار کر کے ڈیڑھ فٹ چوڑی وٹیں بنائی جائیں جن کے درمیان آبپاشی کے لئے نالیاں موجود ہوں۔سیمل کا بیج پوری وٹوں کے کناروں پر قطار کی صورت میں ڈال دیا جائے۔نالیوں میںآبپاشی اس طریقے سے کرنی چاہیے کہ بیج والی مٹی نم رہے۔وٹوں کے کناروں پر لگائے گئے بیج تقریباََ سات سو یوم بعد اگ آتے ہیں۔جون میں اچھی زمین پر لگائی نرسری کے پودے آنے والے موسم برسات میں ہی شجرکاری کے لئے کام آسکتے ہیںاگر انہیں کہر سے بچایا جائے۔
پودا جات لگانے کا طریقہ: سیمل کی شجرکاری دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔سیمل لگانے کا معیاری طریقہ قلموں سے ہی ہے۔بہر حال پوراپودا بھی جڑوں سمیت اکھاڑ کر گڑھے میں لگایا جاسکتا ہے۔اگر پودے سے قلمیں بنانی مقصود ہوں تو شاخ کا 8سینٹی میٹر حصہ اور جڑکے22سینٹی میٹر حصہ کو کاٹ کر بنائی جاسکتی ہیں۔یہ قلم جسکی کل لمبائی30سینٹی میٹر اور موٹائی تقریباََ2سینٹی میٹر ہو گی۔22سینٹی میٹر گہرے سوراخ میں جو نمدار مٹی میں لوہے کی سلاخ سے بنایا جاتا ہے لگائی جاتی ہے قلم زمین میں لگانے کے بعد سوراخ کے گردکی مٹی دبادی جاتی ہے۔سیمل نہری زمینوں میں سے پانی کے کھالوں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ لگایا جاتا ہے پودوں یا قلموں کا درمیانی فاصلہ مناسب رکھنا چاہیے کیونکہ سیمل تیز بڑھت کرنے والے درخت ہیں۔اور بہت قریب لگانا فائدہ مند ثابت نہ ہو گا دو قلموں کا درمیانی فاصلہ عموماََ4میٹر رکھا جاتا ہے نہری علاقوں میں سیمل کی بڑھت خاصی تیز ہو تی ہےاور خصوصاََ نرم اور گہری زمین بہتر رہتی ہے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سیمل کے پودے کی بڑھت پہلے سال نسبتاََ کم ہو تی ہے اور عمر کے ساتھ اس کی بڑھت میں تیزی آجاتی ہے۔ماہ جون سے اگست تک بڑھنے کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔سخت زمین سیمل کی نشو ونما پر خاصا منفی اثر ڈالتی ہے۔سیمل کی فصل کو کہر کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں کہر پڑتا ہے یہ پودا زمین کی سطح تک مر جاتا ہے مگر اس میںگھبرانے کی بات نہیںہے کیونکہ آنے والے بہار کے موسم میں اس پودے کے مڈھ سے نئی شاخیں نکل آئیں گی۔اس سلسلے میں بہتر یہ ہو گا کہ جون میں لگائی گئی نرسری کے پودے موسم بہار میں لگائے جائیں جن کے نتائج بہتر ہوں گے۔اگر قلم کی بجائے نرسری کے پودے لگانے مقصود ہوں تو یہ مارچ کے مہینے میں لگانے چاہیئں جب ان پودوں پر پتے نہ ہوں مگر اس بات کا یقین کر لیجئے کہ پودے کو پانی باقاعدگی سے ملتا رہے تا کہ مٹی نم رہے۔
افزائش:
پودایا قلم لگانے کے بعد اس کی نگہداشت کا وقت آتا ہے ۔پانی ہر پودے کی ضرورت ہو تی ہے ۔مگر پانی اس قدر نہ دیا جائے جو زمین پر کھڑا رہے۔اس سے پودا مرجانے کا خدشہ ہو تا ہے ۔اس بات کا تعین کر لیں کہ مٹی نم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیم زدہ زمین پر سیمل کی کاشت ممکن نہیں اگر سیمل برسات میں لگایا گیا ہے تو پہلی بارش کے بعد پودے یا قلم کے اردگرداگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کر دیںتاکہ پودا اپنی صحیح نشوونماپانے اورسورج کی روشنی پودے تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچے ۔جڑی بوٹیوں کی تلفی مناسب وقت کے بعد کرتے رہنا چاہیے۔تاکہ پودا اتنا بڑا ہو جائے کہ اسے ان جڑی بوٹیوں نقصان نہ پہنچے۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایسی جگہ جڑی،بوٹیوں کو تلف کیا جاتا ہے پودے کی بڑھت عام زمین سے دو گنی ہوتی ہے۔اس کا دوسرا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ اس پودے پر جس کے اردگرد جڑی بوٹیاں نہ ہوں کہر کا اثر بھی کم ہو تا ہے۔قدرتی طور پر سیمل کو شاخ تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ درمیان والے تنے کے گرد ایک چکر کی صورت میں نکلنے والی نچلی شاخیں ایک ہی حد تک اپنا کردار ادا کرنے کے بعد خودبخود خشک ہو جاتی ہیں۔یوں بھی کسی قسم کے درخت کے لئے بلاضرورت شاخ تراشی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کا بڑا بُرا اثر پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ بے احتیاطی سے کی ہوئی شاخ تراشی پودوں پر کیڑوں،بیماریوں کے حملے کا باعث بن سکتی ہے۔البتہ وہ پودے جو کہ دو یا دو سے زیادہ سیدھے بڑھنے والے تنے پیدا کر دیں ان میں سب سے سیدھے تنے کو بچا کرموسم سرما میں باقی تینوں کو کسی تیز دھار آلے سے کاٹ دیا چاہیے۔پودے کوShoot borer سے بچانے کے لئے اسے صحت مند رکھنا ضروری ہے۔
استعمالات: سیمل کی لکڑی کمرشل پلائی وینئیر(Veneer)دروازے،ماچس کی تیلیاں،جوتوں کی ایڑیاں اور کریٹ بنانے کے کام آتی ہے۔سیمل کا ریشہ تکیوں کے بھرنے کے کام آتا ہے۔چھال کے اندرونی حصہ کے ریشوں کے رسے بنائے جاتے ہیں۔سیمل کی جڑوں میں پروٹین،دوسری جڑوں والی زرعی فصلوں کے برابر ہوتی ہے البتہ کیلیشم مقابلتاََ زیادہ ہوتا ہے۔سیمل کی جڑیں ادویاتی تاثیرکی بھی حامل ہوتی ہیں،پھول اور پتے چارہ کے کام آتے ہیںمثال کے طور پر خرگوش سیمل کے نومولود تنے شوق سے کھاتے ہیںچوہے،سور اور خارپشت اس کی جڑوں کو کھانا پسند کرتے ہیں۔لکڑی کا اوسط وزن5200گرام فی کیوبک سینٹی میٹر اور حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت4900کلوکیلوری فی کلو گرام ہے۔
معاشیات: سیمل عام طور پر کھالوں اور راستوں کے کنارے پر لگائے جاتے ہیں۔جہاں پر ان کی بڑھت خاصی بہتر ہوتی ہے۔قطاروںکی صورت میں لگائے گئے سیمل تقریباََ دس سال کی عمر میں فی درخت ایک ہزار روپے سے پندرہ سو روپے مالیت کے ہو جاتے ہیںسیمل کو زرعی شجرکاری میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔اسے15فٹ15x فٹ کے فاصلے پر لگا کر درمیانی رقبہ میں دو تین سال تک مختلف اقسام کی زرعی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔اس رجحان کی مزید حوصلہ افزائی ضروری ہے۔


The Silk Cotton tree (Bombax Ceiba), locally known as "Sumbal". A tree that matches its name in beauty, and it is often covered with flowers and strands of silk.

No comments:

Post a Comment