Saturday 11 July 2015

Dalbergia sissoo شیشم، ٹالی

نباتاتی نام :ڈلبرجیا سسو Botanical Name: Dalbergia sissoo Roxb.
خاندان ©: فابیسی Family:Fabaceae
 لیگومینیسیLeguminosae
انگریزی نام: زوز دڈ Rose wood
دیسی نام: شیشم، ٹالی  Shisham Thali
ابتدائی مسکن(ارتقائ):برصغیر،ہمالیہ۔پاکستان میں بہت سے علاقوں میں بھارت اور دنیا کے دوسرے حصوں میں کاشت کیا جاتاہے۔
قسم :پت جھاڑ
 شکل:                        قد:30 میٹر  پھیلا 25,20فٹ
پتے: پتے مرکب ہیں،3 تا 5 پتیاں۔پتیوں کے درمیان5-2 تا6 سینٹی میٹر چوڑی بیضوی سخت اور نوکدار ،چھال بھوری لکیردار لمبائی میں پرانے درخت موسم ختم ہونے پر چھال اتارتے ہیں،نوجوان شاخیںبھورے رنگ ڈھکی ہوتی ہیں
پھولوں کا رنگ:ذردی مائل سفید،گلابی مائل                               پھول آنے کا وقت: مارچ اور مئی۔پھول چھوٹے اور گروہ میں نظر آتے ہیں
پھل:پھلیاں چھوٹی ہوتی ہیں5تا8سینٹی میٹر لمبی اور کاغذی،پھلیاں جون تا فروری میں پکتی ہیں عام طور پر ہر پھلی میں 1 تا4 بیج ہوتے ہیں
کاشت:بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،
جگہ کا انتخاب:ایک غیر روادار درخت جو اچھی نکاسی والی ،ریتلی کے ساتھ،میرا زمینوں پر لیکن اچھی برداشت والی زمین پر بڑھتا ہے بارش کی حد 2000-300 ملی میٹر سالانہ ۔کہر مزاہماور درجہ حرارت50-0ڈگری سینٹی گریڈ۔سطح سمندر سے بلندی1500-900 میٹر۔
یہ ایشا کا اہم ترین درخت ہے،یہ نظر آتا ہے خشک ذیلی گرم مرطوب ،خشک درجہ حرارت آب و ہوا اور اچھی نہیں ہے
نمایاں خصوصیات:دریاو ¿ں اور ندی کے کناروں پر لگایا جاتا ہے۔یہ آسانی سے جھاڑی بنا لیتا ہے۔
شاخ تراشی:
بیماریاں:
پیداوار :آہستہ بڑھوتری ، اوسط MAI     7.7 کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ




لکڑی کی خصوصیات:
دانہ : آپس میں جھکڑے ہوئا دانہ،درمیانہ کھردرا لچکدار
رنگ : سفید لکڑی زرد بھوری،سخت لکڑی گولڈن بھوری سے سیاہ،
کثا فت :sg 0.85 ۔ کلوریز کی مقدار 5000 کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی :سخت اور مضبوط ،لچکدار
استعمال ©: چارہ، فرنیچر سازی،ایندھن،چارکول ، صحت بخش،جڑیں اور چھال ریلوے کے سلیپر،کھیلوں کا سامان،زرعی آلات اور سایہ ۔

شیشم:قدرتی حالات میں شیشم کا درخت دریاو ¿ں پرانی گزر گاہوں میں میرا زمین پر نہایت عمدگی سے ہوتا ہے چکنی مٹی پر مشتمل زمینوں پر اگنے والے شیشم کے درخت چھوٹے رہ جاتے ہیں یہ نرم مسام دار زمین کو پسند کرتے ہیں جس میں دریائی مٹی ملی ہوئی ہو ۔شیشم کے طبعی مسکن میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت (سائے میں )102 سے120 فارن ہایئٹ تک کم از کم درجہ حرارت 25 سے42 فارن ہایئٹ تک ہوتا ہے ان علاقوں علاقوں میں اوسطاََ بارش کا اوسط عموماََ 75 سے450 سینٹی میٹر تک ہو سکتی ہے ۔ شیشم سیم اور تھور زدہ علاقوں میں نہیں ہوتی شیشم ایک بڑی قد وقامت کا درخت ہے جس کے پتے موسم خزاں میں جھڑجاتے ہیں اسکی چھتری ہلکی ہوتی ہے موافق علاقوں میں شیشم کا درخت کافی موٹا ہوتا ہے اچھے مضبوط درخت کی بلندی 30 میٹر تک عام ہے۔ شیشم کے پتے نومبر میں گرنا شروع ہوجاتے ہیں گرنے سے قبل پتوں کا رنگ زرد ہو جاتا ہے سرد علاقوں میں شیشم کا درخت دسمبر میں پتوں سے خالی ہو سکتا ہے جبکہ بعض علاقوں میں جنوری کے آخر تک بھی درخت کے تمام پتے جھڑ نہیں پاتے ۔نئے پتے جنوری کے دوسرے پندر ہواڑے یا فروری کے پہلے پندر ہواڑے کے دوران آتے ہیں پھلوں کی کلیاں بھی نئے پتوں کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں اور زردی مائل پھولوں کے گچھے مارچ یا اپریل میں شاخوں کی بغلوں میں کھلتے ہیں پھلیاں بڑی تیزی سے بنتی ہیں یہ پھلیاں دسمبرمیں یا شروع میں پک جاتی ہیں شیشم کی پھلیاں چوڑی زرد سطح اور ایک سے تین بیجوں والی ہوتی ہیں شیشم کے بیج گردہ نما ،چپٹے ،ہلکے بھورے رنگ کے ہوتے ہیں جن کا خول نہایت نرم و نازک ہوتا ہے شیشم کے بیج کو اگر اچھی جگہ پر ذخیرہ کیا جائے تو یہ ایک سال تک قوت نمو بر قرار رکھ سکتا ہے ۔شیشم کے درخت کو بہت زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ مضبوط اور جاندار پودے کمزور پودوں کو دبانے اور ان کی موت کا باعث بن جاتے ہیں شیشم کا پودا کہر کا بخوبی مقابلہ کر سکتا ہے مگر بعض اوقات شدید پالا پڑنے کی صورت میں اس کے پتے جل جاتے ہیں لیکن پودے کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔نوخیز پودے خشک سالی برداشت نہیں کر سکتے آبپاشی ذخیروں میں اگر پانی زیادہ دیر تک بند رہے تو پودے مر جاتے ہیں اونٹ بکریاں اور دوسرے جانور شیشم کے پتے کھاتے ہیں جن علاقوں میں مویشی کھلے عام پھرتے ہیں شیشم کے پودے کئی کئی سال مویشیوں کی خوراک بنے رہتے ہیں شیشم آگ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا ۔شیشم کا درخت اگر سطح زمین کے قریب سے کاٹ دیا جائے تو وہ بہت سی شاخیں نکالتا ہے اور گھنی جھاڑی کی شکل اختیار کر لیتا ہے نو مولود پودے ابتدائی عمر میں ہی لمبی اصل جڑ پیدا کرلیتے ہیں درخت کی کٹائی کی صورت میں خصوصاََ جب کٹائی کی سطح زمین کے برابر سے یا گہرائی میں کی جائے درخت کی جڑوں سے بے شمار شاخیں نکل آتی ہیں اگر شیشم کی جڑوں کو مٹی ہٹا کر ننگا کر دیا جائے تو جڑوں سے پیدا ہونے والے پودوں کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے شیشم کی ہلکی ،چپٹی پھلیاں غیر دریائی علاقوں میں تیز ہوا سے اور دریائی علاقوں مین تیز ہوا یا پانی سے دور دور تک پھیل جاتی ہیں پھلیوں کا غالب دسمبر کے اوائل سے اپریل کے آخر تک زمین پر گر جاتا ہے اور اس وقت تک پڑا رہتا ہے جب تک غالب پھلیاں اتنی گیلی نہ ہو جائیں کہ بیج اگ سکیں۔
نرسری اگانے کا طریقہ:نرسری لگانے کے لئے علاقے کے بہترین درختوں سے جو سیدھے تنے ،بڑے چھتر والے کم شاخوں والے ہوں سے صاف ستھرا بیج ماہ دسمبر اور جنوری میں حاصل کر کے ہوا دار خشک جگہ پر محفوظ کر لیا جائے اور فروری تا اپریل نرسری میں بو دیا جائے ۔وٹیں بنانے سے پہلے زمین کو ہل چلا کر نرم کر لیا جائے زمین کو اچھی طرح ہموار کر کے اس میں گوبر کی کھاد اور بھل ڈال دی جائے۔
 اس کے بعد زمین میں/2 1 فٹ+ 2فٹ سائزکی وٹیں 2یا3 فٹ کے فاصلے پر بنائی جائیں وٹوں کی لمبائی پندرہ سے بیس فٹ تک موزوں ہوتی ہے شیشم کی نرسری 3فٹ 5 فٹ یا 10 فٹ کے فاصلے پر 9x12''+8"/2 انچ سائز کی کھودی گئی نالیوں پر تیار کی جا سکتی ہیں اور نالیوںکے دونوں کناروں سے کم از کم چھ انچ چوڑی جگہ سے گھاس وغیرہ چن کر زمین میں گوڈی کر کے بھر بھری کر لی جائے بیج کی پھلیاں وٹوں کے کنارے لائنوں میں لگا دیا جائے۔اور ان کو بھل سے بیج جتنی موٹی تہہ سے ڈھانپ دیں اور اس کے فوراََ بعدپانی لگادیں پانی دیتے وقت یہ احتیاط ضروری ہے کہ پانی بیجائی کے اوپر نہ جائے بلکہ بیج کو نمی سرایت کر کے ملے پانی کا وقفہ اتنا ہو کہ روئیدگی تک نمی برقرار ہے ،عموماََ یہ وقفہ تین دن سے ایک ہفتہ تک کافی رہے گا مگر اس کا انحصار موسمی حالات اور زمین کی خاصیت پر ہو گا نرسری میں شیشم کا بیج اگنے کے ساتھ ہی دیگر نقصان دہ پودے یعنی جڑی بوٹیاں اور گھاس بھی پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے ان کی تلفی شروع کر دی جائے ایک سال میں 20 سے 25 تک آبپاشیاں ضروری ہو نگی۔
شجر کاری کے لئے پودے حاصل کرنے کے طریقے ©:نرسری کے علاوہ کماد یا دوسری فصلوں یا نہروں کے کنارے قدرتی طور پر اگی ہوئی شیشم کی شجر کاری کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے اس کام کے لئے تین طریقے استعمال کئے جاتے ہیں جب پودے 3 فٹ تک لمبے ہو جائیں تو شجر کاری کے قابل ہو جاتے ہیں ان پودوں کو کدال سے اکھاڑا جاتا ہے اور اس کی قلم اس طرح بنائی جاتی ہیں کہ جڑ کی لمبائی 8 تا 9 انچ اور تنا 2 سے3 انچ رکھی جاتی ہے اور تمام چھوٹی جڑیں کاٹ دی جاتی ہیں ان قلموں کو بوریوں یا کھاد کے توڑوں میں سو سو کے بنڈلوں میں باندھ کر کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے لیکن خیال رہے کہ موسم میں ان قلموں کو خشک نہ ہو نے دیا جائے اور ان پر پانی چھڑکتے رہنا چاہیے ۔قلمیں بنانے کا سب سے اچھا موسم بہار شروع اور نئے شگوفے نکلنے سے پہلے یعنی فروری مارچ ہے۔شیشم کے سالم پودے جن سے قلمیں حاصل کی جا سکتی ہیںاصل شکل میں لگائے جا سکتے ہیں لیکن ایسا صرف جنوری اور فروری میں ہی ممکن ہے جب شگوفے اور پتے نہ نکل آئیں لیکن شیشم کی شجر کاری کے اس طریقہ سے کافی پودے مر جاتے ہیں اور کامیابی کم ہے شیشم کے سالم پودے شگوفے پھوٹنے اور نئے پتے نکل آنے پر سال کے کسی موسم میں بھی لگائے جا سکتے ہیں ایسا پودوں کی جڑوں کو ننگا کئے بغیر گاچی سمیت نکا ل لیا جاتا ہے پودے لگانے کا طریقہ درج ذیل ہے۔
پودے لگانے کی جگہ اور طریقہ:شیشم کی قلم کی بجائے جڑوں والے سالم پودے یا اس کی پولی تھین گملے یا گاچی کے ساتھ زمین سے حاصل کئے گئے سالم پودے لگانے کے لئے دو فٹ قطر کا اور دو فٹ گہرا گرھا کھود کر 3 ہفتے کھلا رکھیں تاکہ اچھی طرح خشک ہو جائے اس کے بعد گوبر یا پتوں کی کھاد جو جڑوں اور کنکروں سے صاف ہو اور بھل کو برابر مقدار ملا کر گڑھے کو ڈیڑھ فٹ بھر دیں اور مٹی کو اچھی طرح دبا دیں۔سالم پودا لگانے کے لئے گاچی کے برابر گڑھا بنا لیں اور گاچی سمیت پودا لگا کر اردگرد کی مٹی دبا دیں لگانے کے فوراََ بعد پانی لگائیں یہ آبپاشی بہت ضروری ہے خالی جگہوں کو پر کرنے کے لئے جہاں سے پہلی دفعہ لگائے ہوئے پودے فیل ہو گئے ہوں پولی تھین میں لگائی گئی قلمات بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔
شیشم کی شجر کاری قلموں کی مدد سے سب سے آسان اور سستی ہے اور کامیابی کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے شیشم کے درخت جس قطعہ زمین یا خطہ میں لگانے مقصود ہوں اس کی سطح اور ڈھلان کو مد نظر رکھتے ہوئے پانی کا ایسا انتظام تیار کیا جانا چاہیے کہ ہر پودے کو مناسب مقدار میں مہیا ہو سکے۔ جڑوں سے پیدا ہونے والے پودوں کو سٹمپ (مڈھ )بنا کر ایسی نالیوں کے اندر کی طرف لگایا جانا چاہیے جن کو نالیوں سے پانی ملتا رہے یہ نالیاں ایک دوسرے سے تین تین میٹر کے فاصلے پر ہونی چاہیے اور پودے ایک دوسرے سے دو میٹر کی دوری پر لگائے جائیں اور پلاٹوں میں بھی اس طرح لگائے جا سکتے ہیں کہ ہر پودے کو 2x2 میٹر جگہ میسر آسکے ۔ایسے علاقوں میں جہاں نقصان دہ مضر جڑی بوٹیاںپیدا ہوتی ہوں وہاں شیشم کے پودوں کے درمیان توت ،بکائن کیکر اور فراش کے پودے لگائے جا سکتے ہیں تاکہ پودوں کے درمیان خالی زمین نصف رہ جائے اور جڑی بوٹیاں پیدا نہ ہوں۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں قلم لگانی ہو وہاں لوہے کی سلاخ یا لکڑی کی کھونٹی سے جڑ کی لمبائی کے برابر سوراخ کیا جائے سوراخ میں قلم لگا کر چاروں طرف سے پاو ¿ں سے دبا کر مٹی ساتھ لگا دی جائے اور اس کے بعد پانی دیا جائے۔
پودے لگانے کا موسم :شیشم کی کامیاب شجر کاری کے لئے موسم بہار میں پودے لگا دیئے جائیں پودے برسات کے موسم میں بھی لگائے جا سکتے ہیں تا ہم جس قدر اوائل موسم بہار میں شجر کاری کی جائے اتنا اچھا ہے۔
آبپاشی:نئے شگوفے نکلنے تک پودے یا قلم کو 3 دن کے وقفے پر پانی لگاتے رہیں شگوفے دو ہفتے کے اندر نکل آئیں گے اس کے بعد پانی کا وقفہ بتدریج بڑھایا جا سکتا ہے لیکن خیال رہے کہ قلمات پانی میں ڈوبنے نی پائیں ورنہ نازک شگوفے مر جائیں گے اور قلم فیل ہو جائیگی ۔
پودوں کی حفاظت:شیشم کے چھوٹے پودوں کا مویشیوں اور بھیڑ بکریوں سے کم از کم 3 سال تک بچاو ¿ ضروری ہے بچاو ¿ کانٹے دار چھاپوں کی باڑ لگا کر کیا جا سکتا ہے کیڑے اور پتے کی سونڈی کے حملے کی صورت میں مختلف کیڑے مار ادویات استعمال کی جا سکتی ہے جو کہ زمیندار اپنی زرعی فصلوں کے بچاو ¿ کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔
صفائی ،چھٹائی اور کٹائی:جب شیشم کے پودے 3 سے 4 سال کے ہو جائیں تو ان کی صفائی ضروری ہو جاتی ہے ان کی صفائی اس طرح کی جائے کہ پودوں کے درمیان تمام جڑی بوٹیاں ختم کریں۔اور پودے کی نیچے سے شاخیں کسی تیز دھار آلے یا کلہاڑی سے کاٹ دی جائیں تا کہ اس کا تنا بن سکے ۔شیشم ے پودوںکی چھٹائی چھٹے سال گیارھویں سال اور سولہویں سال کر نی چاہیے چھٹے سال ہر دوسرا پودا نکا ل دینا چاہیے تا کہ دوسرے پودوں کو زیادہ پھلنے پھولنے کےلئے جگہ مل سکے گیارھویں سال جب پودوں کی چھتر آپس میں مل جائیں تو کمزور ٹیڑھے ہوں انہیں نکال دیا جائے تا کہ اچھے اور صحت مند درختوں کو پھلنے اور موٹا ہونے کا موقع مل سکے اس طرح پودوں کو زیادہ روشنی مل سکے گی اور سولہویں سال میں بھی اسی طرح ٹیڑھے کمزور اور دبے ہوئے درخت نکال دینے چاہیئں۔چھٹائی سے اس طرح وقفہ وقفہ سے بالن کی لکڑی بھی ملتی رہتی ہے اور آمدن بھی ہوتی ہے اور جو پودے رہ جاتے ہیں وہ زیادہ صحت مند اور زیادہ موٹے ہوتے ہیں شیشم کے درختوں کی کٹائی 20 سال بعد کر دی جاتی ہے اور ہر ایکڑ میں 10 سے 15 درخت چھوڑ دئیے جاتے ہیں جن کو آنے والی فصل کے ساتھ کاٹا جاتا ہے ان سے اچھی عمارتی قسم کی لکڑی حاصل ہوتی ہے
شیشم کے درخت کی بیماریاں:یوں تو ہر درخت پر کیڑے مکوڑوںاور پھپھوندیوں کے حملے ہوتے ہیں لیکن پچھلے چند سالوں سے شیشم کے درختوں پر سوکھے کی بیماریاں دیکھنے میں آ رہی ہیں اور بہت تن آور اور خوبصورت درخت چند مہینوں میں سوکھ جاتے ہیں جو کہ ایک بہت تشویشناک امر ہے لیکن شیشم کی لکڑی کو ہماری عمارتی لکڑیوں میں بہت اہمیت حاصل ہے اور بے شمار صنعتوں کا اس کی اچھی کوالٹی کی لکڑی پر انحصار ہے اس سلسلے میں پنجاب فارسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے کئی ایک دیگر اداروں اور تجربہ کار سائنس دانوں کی معاونت سے شیشم کے سوکڑے کی وجوہات اور بچاو ¿ کے طریقے دریافت کئے ہیں ابتدائی وجوہات میں پانی کا بے دریغ استعمال سیم و تھور کے مسائل نامیاتی مادہ کی کمی زمینوں میں کار آمد جرثوموں کی
ناپیدگی زرعی کھاد ار زہروں کی بے تحاشا استعمال اور دوسری ماحولیاتی تبدیلیاں تشخیص کی گئی ہیں جو درخت کو کمزور کر دیتہ ہے ثانوی وجوہات میں پھپھوندی کا حملہ ہے جو مسلسل شاخ تراشی کے بعد حملہ آور ہوتی ہے ہل چلاتے وقت جڑوں کا زخمی ہو جانا اور ان میں پھپوندی کا دخول بیماری کوپھیلانے میں بہت مدد گارثابت ہوتا ہے ۔احتیاطی ددابیر میں جڑوں کے نزدیک کھاد دینا کالر مٹی سے ڈھانپ دینا مخلوط شجر کاری یعنی شیشم کو دوسرے درختوں کے ساتھ ملا کر لگانا اور سنگلاخ سیم اور تھور اور کلر والی زمینوں میں شیشم کو نہ لگانا وغیرہ شامل ہےں شاخ تراشی میں مناسب احتیاط بھی ضروری ہے شاخ تراشی کے بعد تازہ زخم پر تارکول کے محلول کو بطور مرہم استعمال کریں تو کیڑے مکوڑے اور پھپھوندی نہ تو انڈے دیں گے اور نہ ہی پھپھوندی کے جر ثومے زخم کے راستے درخت کے جسم میں داخل ہو کر بیماری پھیلا سکیں گے۔
استعمالات:شیشم اس اہم ترین عمارتی لکڑی اور عمدہ ایندھن حاصل ہوتا ہے اس کی لکڑی ھبورے رنگ کی نہایت سخت مضبوط پائیدار ہوتی ہے جس پر گہری بھوری یا سیاہ لہریں یا دھاریاں ہوتی ہیں شیشم کی کچی لکڑی سفید یا زردی مائل بھوری ہوتی ہے جبکہ پکی لکڑی سنہری مائل براو ¿ن سے گہری بھوری ہوتی ہے جس پر مزید گہری بھوری (بلکہ سیاہ )رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں لیکن جلد ہی لکڑی کا رنگ ہلکا ہو جاتا ہے شیشم کی لکڑی کے Grains باہم مربوط ہوتے ہیں اور یہ کھردری ہوتی ہے کسی طرح کی بویا ذائقہ نہیں ہوتا ۔ہواخشک ہونے کی صورت میں شیشم کی لکڑی کا وزن 0.801 گرام فی کیوبک سینٹی میٹر یا 501 پونڈ کیوبک فٹ ہوتا ہے شیشم کی پکی لکڑی نہایت پائیدار ہوتی ہے مگر کچی لکڑی پر گھن اور پھپھوندی کا حملہ جلد ہو جاتا ہے ۔شیشم کی لکڑی کو چیرنا آسان ہے اس پر ہاتھ یا مشین کے ذریعے کام بھی آسانی سے ہو سکتا ہے جب اس کی سطح پر گولائی میں چیرے ہوئے پھٹوں پر کام کیا جائے تو اس کے گرین Grains چبھتے ہیں تاہم رندے وغیرہ سے اس کی سطح کو صاف کیا جائے تو یہ ہموار اور نرم ہوجاتی ہے اسے گولائی میں چلنے والے خراد پر چھیلا جا سکتا ہے اور کچھ عرصے پانی میں رکھے جانے کے بعد تختوں کی شکل میں کاٹا جا سکتا ہے یہ پلائی وڈ بنانے کے لئے بہترین ہے اسے بھاپ کے ذریعے خم دیا جا سکتا ہے شیشم کی لکڑی سے بنی ہوئی اشیاءپالش کی جائیں تو خوب چمک دیتی ہیں لکڑی کا اوسط وزن 85 گرام فی کیوبک سینٹی میٹر اور حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت 5000 کلو کیلوری فی گرام ہے۔شیشم کی لکڑی عمدہ قسم کے فرنیچر اور الماریاں بنانے کے لئے بہترین ہے چھکڑوں ریڑھیوں زرعی آلات اور اسلحہ میں بھی اس کااستعما ل عام ہے مختلف آلات کے دستے بنانے اور کندہ کاری کے لئے بھی شیشم کی لکڑی نہایت عمدہ ہے اس کے علاوہ شیشم کے پتے اور نرم ٹہنیاں چارے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور زرعی چارے کی کمی کے دنوں میں درختوں سے شاخیں کاٹ کر مویشیوں کو کھلائی جاتی ہے اس عمل سے درخت کی مناسب بڑھت پر بڑا اثر پڑتا ہے اور بے شمار کیڑے مکوڑے اور پھپھوندی کی اقسام اس پر حملہ آور ہو جاتی ہیں
اعلیٰ قسم کے فرنیچر کے لئے ©:
شیشم کو کھالوں اور وٹوں کے کناروں پر لگایا جاسکتا ہے ۔
اس کی شجر کاری بہت آسان اور کم لاگت سے جڑ دار قلم ( 50 پیسہ فی قلم)کے ذریعے موسم بہار اور برسات میں کی جا سکتی ہے۔
شیشم کی نرسری بیج سے لگائی جاتی ہے جو کہ فروری ،مارچ میں اکٹھا کیا جاتا ہے ۔
اس سے اچھی قسم کافرنیچر تیار ہوتا ہے ´
اس سے اچھی قسم کا بالن بھی حاصل ہوتا ہے ۔
اس کی لکڑی سے زرعی آلات بنائے جاتے ہیں۔
اس کی باریک تہوں سے بہت ہی مضبوط اور خوبصورت پلائی حاصل کی جاتی ہے ۔
اس کی لکڑی پیکنگ کیس بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔
53'' تا63'' اور 6' تا8' لمبائی کے لٹھے وینئر کی صنعت کے لئے درکار ہیں۔

یہ 20 سال کی عمر میں17 من لکڑی دیتا ہے جو کہ 200 روپے من کے حساب سے آسانی بک جاتی ہے ۔

1 comment: