Saturday 11 July 2015

Eugenia jambolanaSyzygium cumini جامن، جموں


جامن، جموںنباتاتی نام :یو جینیا جنبولاناEugenia jambolana


نباتاتی نام :سیزیجیم کومنی سکیل Botanical Name:Syzygium cumini Skeels
خاندان ©: مرٹیسی Family: Myrtaceae
انگریزی نام: بلیک پلم Black plum
دیسی نام: جامن، جموں Jaman, Jamu 
ابتدائی مسکن(ارتقائ):برصغیرکے ساتھ پاکستان۔پاکستان میں ہموار اور لوئر پہاڑی علاقوں پنجاب،پشاوراور آزاد کشمیر میں پایا جاتاہے۔
سال بہ سال کچھ پتے جھاڑنے والاقسم:سدا بہار
شکل:تاج نما ،گول   قطر:2-1 میٹر    قد:40 میٹر                   قد:15-20 میٹر

پتے:پتے سادہ ہیں،سائز بدلنے والے بیضوی شکل کے جیسے نیزہ15-7 سینٹی میٹر لمبے،گہرے سبزسخت چمڑے جیسے۔چھال ہموار اور تنا مُڑا ہوا،چھال ہلکی بھوریSlight depression
پھولوں کا رنگ:گدلا سفید                    پھول آنے کا وقت: مارچ۔مئی
پھولوں کا رنگ:سفید  پھول آنے کا وقت: فروری اور مارچ
پھل:پھل ہموار پھل جون اور اگست میں پکتا ہے
کاشت:بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔ بیج چھوٹے ہوتے ہیں،
جگہ کا انتخاب:ایک بہت غیر روادار درخت جو ریتلی ،میرا اور اچھی نکاسی والی زمینوں پر بڑھتا ہے۔بارش کی حد 1250 ملی میٹر سالانہ۔آدھی مرطوب،گرم،ذیلی گرم مرطوب ،ٹھنڈی مون سون آب وہوا کو ترجیح دیتا ہے درجہ حرارت-5 تا 40 ڈگری سینٹی گریڈسطح سمندر سے بلندی 1500 میٹر۔
نمایاں خصوصیات:دنیا کے بہت سے علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔یہ جھاڑی آسانی سے بنا لیتا ہے
شاخ تراشی:
بیماریاں:کیڑوں اور بیماریوں کے بارے میں نہیں جانا گیا۔
پیداوار:تیز بڑھوتری ، 
لکڑی کی خصوصیات: 
پیداوار : بہت تیز بڑھوتری ، بڑھوتری 0.75 m/yrاوسط MAI 12 میٹر فی ہیکٹر سالانہ
لکڑی کی خصوصیات 
دانہ : آپس میں جھکڑ ے ہوئے،لچکدار قدرے عمدہ۔
رنگ ©: لکڑی سرخمائل بھوری سے بادامی مائل بھوری
کثا فت: sg 0.70 ۔ کلوریز کی مقدار 4800 کلوریز فی کلو گرام 
مظبوطی : سخت،بھاری اور لچکدار 
استعمال ©:تعمیرات،ایندھن،پھل ادویاتی، ٹینن ، زیابیطس کے علاج کے لیے ، 
(fruit is a carminative ), shelterbelts,مگس بانی،پیپر کا گودا،چارہ اورسڑک کے کناروں پر پودے لگانا۔
جامن
تعارف: جامن کا درخت لا تعداد حالتوں میں ملتا ہے لیکن خاص طور پر نہروں ،ندیوں کے کنارے اور مرطوب بلکہ دلدلی علاقوں میں ہو سکتا ہے ۔سیلابی ریتلی یا میرا



زمینوںمیں چھوٹے پتیوں والی جامن کی قسم عام ملتی ہے۔
پتے،پھول اور پھل: جامن ایک بڑے قد کاٹھ کا سدا بہار درخت ہے جس کی چھتری نہایت گھنی،سایہ دار شاخوں سے عبارت ہوتی ہے ۔اس کے پتے نرم اور شاخیںدور سے چمک دار سبز نظر آتی ہیں۔جامن کی چھال 2.5سینٹی میٹر موٹی ،ہلکی یا گہری خاکستری،تقریباََ ہموار اندر سے سرخ ہوتی ہے ۔چھال پر سطحی (Superficial)سے نشیبب ہوتے ہیں جو اس کی چھال کے گرنے سے پیدا ہوتے ہیں،جامن کے پتے عموماََ جنوری لے لگ بھگ گرنا شروع ہوتے ہیں اور فروری ،مارچ تک گرتے رہتے ہیں ۔نئے پتے جو تانبے جیسے سرخ ہوتے ہیں فروری ،مارچ میں نمودار ہوتے ہیں ۔خشک علاقوں میں جامن کا درخت موسم گرما کے اوائل میں کچھ وقت کے لئے پورا نہیں تو تقریباََ پتوں سے خالی ہو جاتا ہے ۔بعض اوقات تو درخت جن پر بڑی تعداد میں پھول آچکے ہوتے ہیں ،پتوں سے تقریباََ تہی(Without)ہوجاتے ہیں ۔جامن کے چھوٹے چھوٹے ،سبزی مائل خوشبودار سفید پھولوں کے گچھے عموماََ مارچ سے مئی تک نکلتے ہیں۔جامن کا پھل ،جو جون سے اگست تک پکتا ہے ۔ایک لمبوترہ،معکوس بیضہ نما(Ovate)،نیم کرہ نما،رسدار بیرا سا ہوتا ہے جو 1.3تا2.5 سینٹی میٹر لمبا یا بعض اقسام میں اس سے بھی بڑا،قرمزی مائل سیاہ ہموار،چکنا اور پک جانے پر چمکدار ہو تا ہے ۔اس کی چھال ذرا موٹی اور اس کا گودہ رسدار ہوتا ہے جو کھایا جاتا ہے ۔اس کی خوشبو تیز ہوتی ہے ۔جامن کا بیج ایک تا دو سینٹی میٹر لمبا،اپنے اپنے پھل کی شکل کا یہ دوسرا پانچ گوشہ ہو تا ہے ۔بیج جو مختلف شکل کے ہوتے ہیں نیم چرمی(Coriaceous)خول کے اندر ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ ہوتے ہیں کہ بظاہر ایک بیج لگتے ہیں۔جامن کی تازہ بیج میں قوت نمو(Germination power Fertility)بہت زیادہ ہوتی ہے ۔لیکن یہ جلد ہی اپنی قوت نمو کھو دیتا ہے ۔پھل جونہی پکتا ہے ،زمین پر گر جاتا ہے ۔پرندے اور چمگادڑ جامن کھاتے ہیں اور انہی کے ذریعے جامن کا بیج پھیلتا ہے۔
عادات و اطوار: جامن کا درخت ،خصوصاََ نو عمری میں سایہ برداشت کر لیتا ہے ۔مویشی اس کے پتے کھاتے ہیں ۔جامن کا پودا بڑا ہو یا چھوٹا ،سطح زمین کے اوپر سے کٹ جانے کے بعد شاخیں ضرور نکالتا ہے ۔جامن کہر برداشت کر لیتا ہے ۔مویشی بھیڑ بکریاں اس کے پتے خصوصاََ نئی کونپلیں کھاتے ہیں۔
روئیدگی: جامن کا بیج اگنے پر بیج پتہ بمعہ خول زیر زمین ہی میں رہتا ہے ۔بیج کا خول جلد ہی گل سڑ جاتا ہے اور سبز رنگ کے بیج ،جو عموماََ دو یا دو سے زائد حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ،ہر حصہ سی ایک نو مولود پودا نکلتا ہے ،یہ پودا اکثر دو یا تین اور کبھی کبھار چار یا پانچ بھی ہوتے ہیں جو ایک ہی پھل سے اگتے ہیں بیج پتہ یا تو زمین کے اندر رہتا ہے یا باہر آجاتا ہے ۔نومولود پودے کی اصل جڑ اوسط درجہ کی لمبی اور موٹی گاو ¿وم ،مخروطی (Terete)گاو ¿وم مددراور پتلی ہوتی ہے۔پہلوئی جڑیں کثیر تعداد میں اوسط درجہ کی لمبی ،ریشہ دار ( Fibrous)،اصل جڑ کے ساتھ نیچے کی طرف کافی گہرائی تک اُگی ہوئی ہوتی ہیں۔بیج پتہ شکل اور سائز کے اعتبار سے باقاعدہ ،گوشہ دار(Pari-Pinnate)،لحمی،سبز اور نیم زمین دوز ہوتا ہے ۔نومولود پودے کا تنا سیدھا،سبز یا ذرا گلابی سا چکنا بے رواں (Glabrous)ہوتا ہے۔اس پر گانٹھوں کی لمبائی .3تا.5 سینٹی میٹر ہوتی ہے ۔جامن کے نومولود پودے کے پتے سادہ اور بے پتیہ ہوتے ہیں ۔پہلے چند پتے تو خودبخود ہی گر جاتے ہیں ۔پتے .3تا.5 سینٹی میٹرلمبے،بعض اوقات یکے بعد دیگرے کی ترتیب سے یا ایک دوسرے کے تقریباََ بالمقابل ہوتے ہیں ۔بعد میں آنے والے معمول کے مطابق پتے ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں ۔پتے کی ڈنڈی .3سینٹی میٹر لمبی،بیضوی(Ovate)،معکوس بیضوی یا بیضوی ،سرا تیز نوکدار اور بعض اوقات گول بے نوک ،پیندا نوکدار ،مکمل،بے دوراں اور چرمی ہوتی ہے۔پتے کو مسلا جائے تو یہ خوشبو چھوڑتا ہے ۔جامن کے نومولودپودوں کے بڑھنے کی رفتار پہلے موسم میں سست ہوتی ہے ۔لیکن موافق حالات میں دوسرے سال اور اس کے بعد کے سالوں میں پودوں کی بڑھنےکی رفتار زیادہ ہوتی ہے ۔جامن خشک سالی سے بہت متاثر ہوتے ہیں ۔نومولود پودوں کے لئے مٹی میں نمی زیادہ اہم ہے ۔جامن کی براہ راست کاشت کونرسری میں پودے اگا کر پھر دوسری جگہ لگانے کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ دوسری جگہ لگاتے ہوئے ،بہت سے پودے مر جاتے ہیں ۔براہ راست کاشت کے لئے جامن جونہی پک جائیں،موسم برسات کے اوائل میں ان کو بو دینا چاہیے۔پودے اگا کر پھر دوسری جگہ لگنے کے عمل میں سب سے زیادہ کامیابی اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ پولی تھین کے تھیلوں میں دو یا تین تین بیج بوئے جائیں۔پودے ایک سال بعد مطلوبہ جگہ پر لگائے جائیں۔

استعمالات: جامن کی اوسط درجہ کی سخت ،مناسب حد تک پائیدار لکڑی عام عمارتی کاموں،زرعی آلات کی تیاری اور بعض دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے۔یہ عمدہ ایندھن بھی فراہم کرتا ہے ۔جامن ایک اہم درخت ہے جسے سڑکوں کے دوریہ اور باغات میں سایہ،رینتی(Ornamental)شجر کاری اور اس کے رس دار پھل کی وجہ سے بویا جاتا ہے ۔جامن ذیابیطس کے لئے مفید ہے۔






Eucalyptus microtheca سفیدہ

نباتاتی نام  :یو کلپٹس مائیکروتھسیا Botanical Name:Eucalyptus microtheca F.Muell.
خاندان ©: مارٹیسی  Family: Myrtacae 
انگریزی نام: فلوڈڈ بکسFlooded Box
دیسی نام: سفیدہ Sufeda
ابتدائی مسکن(ارتقائ):آسٹریلیا،دور دراز تک دنیا کے خشک علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے،پاکستا ن میںہموار اور پہاڑی علاقوںمیں کامیابی سے کاشت کیا جاتا ہے۔
قسم: سدا بہا ر
 شکل: تاج نما ،جھاڑی دار پھیلی ہوئی                       قد: 20-10 میٹر   پھیلا : 1میٹر سے زیادہ
پتے: پتے سادہ ،کم چوڑے اور نیزے کی شکل کے12-7سینٹی میٹر لمبے اور 2.5-1 سینٹی میٹر چوڑے


 پھولوں کا رنگ:                              پھول آنے کا وقت:
پھل : پھل کیپسول کی طرح اور حساب کتاب میں چھوٹے بیج اور شکل میں globeجیسے ہوتے ہیںکیپسول اور ستمبر میں پکتا ہے
کاشت:بیج ، اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔ اچھے طریقے سے ہوا بندڈبوںمیں سٹور کیا گیا بیج کافی عرصے تک اگا کے قابل ہوتا ہے۔
جگہ کا انتخاب:ایک بہت غیر رواداردرخت جو Poor gravelyجیسی لمبی او ر اچھی نکاسی والی زمینوں پر بڑھتا ہے یہ سیلاب میں بہت کم کھڑا ہوتا ہے سال کے مختلف حصوں میںاورممکن ہے کے اچھاہوپانی سے بھر دے اور دلدل جیسی ساحلی جھیل۔بارش کی حد1000-200 ملی لیٹر سالانہ یا اس سے زیادہ لیکن یہ برداشت کرتا ہے خشک موسم سار[ت ماہ تک یا اس سے زیادہ۔یہ ترجیح دیتا ہے نیم بارانی ،گرم مرطوب،ذیلی گرم مرطوب ٹھنڈی مون سون آب وہوا کے ساتھ درجہ حرارت40-0ڈگری سینٹی گریڈسطح سمندر سے بلندی700 میٹر۔
نمایاں خصوصیات:
شاخ تراشی:
بیماریاں:
پیداوار :آہستہ بڑھوتری ، اوسط 10 MAI 5 to کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ
لکڑی کی خصوصیات :
دانہ : بل دار اور آپس میں جکھڑے ہوئے،درمیانہ کھردرا،غیر ہموار لچکدار،
رنگ :لکڑی کالی سے سیاہ بران،
کثا فت : sg 0.89 ۔ کلوریز کی مقدارکلوریز فی کلو گرام
مظبوطی :سخت،سکڑنے پھیلنے والی اور لچکدار۔
استعمال ©:ایندھن ،چارکول،پولزاور فینس پوسٹ،shelterbelt ،مگس بانی ،چھاو ¿ں اور اوزاروں کے دستے ۔




Eucalyputs tereticornis


نباتاتی نام :یو کلپٹس ٹری ٹیکوزنز Botanical Name: Eucalyputs tereticornis Sm.
خاندان ©: مارٹیسی  Family: Myrtacae
انگریزی نام:لچھی،مائی سور،ہائبرڈ  Lachi, Mysore hybird
دیسی نام:سفیدہ Sufeda
ابتدائی مسکن(ارتقائ):آسٹریلیا،دور دراز تک دنیا کے خشک علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے،پاکستا ن میںہموار اور پہاڑی علاقوںمیں کامیابی سے کاشت کیا جاتا ہے۔
قسم: ، سدا بہا ر


 شکل: تاج نما،چوڑی        قد: 40میٹر   پھیلا : 2-1 میٹر
پتے: پتے سادہ ہیں،کم چوڑے اور نیزے کی شکل کے20-15 سینٹی میٹر لمبے ۔پتوں میں بے مثال خوشبو دارباس روغن ہوتا ہے جب ٹوتا ہے،چھال ہموار اور سفیداورزیادہ پت جھاڑ ہوتی ہے
 پھولوں کا رنگ: سفید                       پھول آنے کا وقت: جنوری اور اپریل،عام طور پر پھول چھوٹے اور گچھوں میں ہوتے ہیں۔
پھل : پھل کیپسول کی طرح اور حساب کتاب میں چھوٹے بیج اور شکل میں globeجیسے ہوتے ہیںکیپسول اگست اور ستمبر میں پکتا ہے
کاشت:بیج اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔اچھے طریقے سے سٹو ر کیا گیا بیج کافی عرصے تک اگا کے قابل ہوتاہے۔
جگہ کا انتخاب:ایک بہت غیر روادار درخت جو اچھی قسم کی زمینوں پر بڑھتا ہے یہ شور زدہ ،کھاری ،سوڈک،جگہوں پر زیادہ اگتا ہے۔بارش کی حد 1500-800 ملی میٹر سالانہ۔درجہ حرارت 40-0 ڈگری سینٹی گریڈ۔سطح سمندر سے بلندی 1500 میٹر
نمایاں خصوصیات:                                           شاخ تراشی:
بیماریاں:
پیداوار: بڑی تیز بڑھوتری ، اوسط MAI   10 to 25m/ha/yr کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ
لکڑی کی خصوصیات :
دانہ : بل دار اور آپس میں جکھڑے ہوئے،درمیانہ کھردرا،غیر ہموار لچکدار،
رنگ :گیلی لکڑی ہلکی سبز،سخت لکڑی سرخ بران،
کثا فت: sg 0.71 ۔ کلوریز کی مقدار 4900کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی : سخت،سکڑنے پھیلنے والا اور لچکدار،

استعمال ©:بھاڑا،ایندھن،چارکول،فرنیچر،shelterbelt،مگس بانی،گودا،fiberboard ،اور erosion control ۔

Eucalyptus citriodora


نباتاتی نام :یو کلپٹس سٹریوڈورا Botanical Name:Eucalyptus citriodora Hook
خاندان ©: مرٹیسی Family: Myrtaceae  
انگریزی نام:لیمن سکینٹیڈ گم Lemon Scented Gum
دیسی نام: سفیدہ Sufeda
ابتدائی مسکن(ارتقائ): شمال مشرقی آ سٹریلیا ۔پاکستان میں ہموار اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے
قسم:  سدا بہا ر



 شکل:تاج نما                 قد:40 میٹر   قطر:2-1 میٹر
سفیدہ                         تعارف:سفیدے کا طبعی مسکن آسٹریلیا ہے پاکستان میں یہ تقریباََ ایک صدی پہلے متعارف ہوا اب یہ سطح سمندر سے لے کر ایک ہزار میٹر (3300 فٹ)کی بلندی تک کاشت کیا جاتا ہے اس ہر قسم کی زمین میں اگایا جا سکتا ہے اور ان چند درختوں میں سے جو کلر اور تھور میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن اس کو مناسب بڑھنے کے لئے کھلی روشنی درکار ہے۔سفیدہ ایک بڑا ،سیدھالیکن کبھی کبھار بے قاعدہ شکل کا ہوتا ہے اسکی چھتری چاروں طرف سے زمین کی طرف جھکی ہوئی محسوس ہوتی ہے اس کے تنے کا لپیٹ 3 سے3.5 میٹر (9.9 سے11.5 فٹ)اور بلندی 30 میٹر(100 فٹ) سے بھی زائد ہو سکتی ہے ،سفیدے کی چھال چکنی،ہموار،خاکستری یا سفید مائل ہوتی ہے جس پر بھورے رنگ کے داغ اکثر نظر آتے ہیں ۔
پتے: سفیدے کے پتے 10سے15 سینٹی میٹر لمبے ،کم وبیش درانتی نما ور سائز میں یکساں ہوتے ہیں البتہ نو مولود پودے کے پتے چوڑائی میں ذرا چھوٹے اور تیز نوکدار ہوتے ہیں پھول شہدکی مکھیوں کے لئے پر کشش ہوتے ہیں اور سفیدے کے پھولوں سے تیار شدہ شہد سفید اور صاف شفاف ہو تا ہے اس کا بیج خشخاش کے دانے کے برابر ہوتا ہے ۔یہ درخت مختلف اقسام کی آب و ہوا میں پروان چڑھ سکتا ہے تاہم اس کو مرغوب سیلابی وادیاں اور دریاو ¿ں کے کنارے پسند ہیں لیکن سفیدہ بڑی حدتک خشک سالی اور شور(تھور) کو بھی برداشت کر لیتا ہے سفیدہ کم از کم 15 سے20 فارن ہائیٹ اور زیادہ سے زیادہ 110 تا115 فارن ہائیٹ تک گرمی بھی برداشت کر سکتا ہے۔یہ صحراو ¿ںمیں بھی آبیاری سے کاشت کیا گیا ہے اور فورٹ منرو(بلندی18 سو میٹر )میں بھی اگایا گیا ہے غرضیکہ یہ ایک ایسا درخت ہے جو پاکستان کے ہر خطے میں کامیابی سے اگایا گیا ہے۔
پتے سادہ ہیںکم چوڑے اور بھالے کی شکل کے20-10 سینٹی میٹر لمبے اور 2.5-1 سینٹی میٹر چوڑے،چھال ہموار اور تنا سیدھا،چھال سفید اور سلور بھوریbluish a dimpled appearance
 پھول کا رنگ :                پھول آنے کا وقت: فروری۔مارچ۔پھول تین یا پانچ گروپوں میں ہوتے ہیں
پھل :پھل کیپسول کی طرح اورکئی چھوٹے بیج اور آدھی گول چیز کی شکل کے ہوتے ہیں،کیپسول ستمبر اور اکتوبر میں پکتے ہیں۔
کاشت: بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔ سٹور کیا گیا بیج کافی عرصے تک اگا کے قابل ہوتا ہے بیج سے ،تیزی سے بٹرھنے والا درخت ہے، اس کی ریکارڈ بلندی 326فٹ ہے،آسٹریلیا میں اسکی متعدد قسمیں کاشت ہوتی ہیں، تنا سفید ہوتا ہے،اسکے پتے لیموں کی خوشبو رکھتے ہیں،بیج اور زیربچہ ۔
جگہ کا انتخاب:ایک بہت غیر رواداردرخت جو Poor gravelyجیسی لمبی او ر اچھی نکاسی والی زمینوں پر بڑھتا ہے۔بارش کی حد900-600 ملی لیٹر سالانہ۔نیم بارانی،گرم مرطوب،ذیلی گرم مرطوب،ٹھنڈی مون سون آب و ہوا کو ترجیح دیتا ہے درجہ حرارت40-5 ڈگری سینٹی گریڈ۔سطح سمندر سے بلندی2000 میٹر
بیج حاصل کرنا:              
10 سال سے یا اس سے زیادہ کم کے درختوں سے کیپسول اتار کر دھوپ میں پھیلا دیں اور مناسب سوراخ والی چھاننیوں سے گزار کر صاف بیج اور چھلکے وغیرہ علیحدہ علیحدہ کر لیں۔
روئیدگی:                     
سفیدے کا بیج کنالیوں (مٹی کے ہموار سطح کے برتن)میں بکھیرا جاتا ہے اوپر برائے نام ریت کی تہ ڈالی جاتی ہے اور بوری یا کھردرا کپڑا برتن کے اوپر رکھ کر آبپاشی کی جاتی ہے تاکہ نمی موجو د رہے بیج اگنے پر جب اس میں دوپتیاں آئیں تو پلاسٹک کی تھلیوں میں اس طرح لگایا جاتا ہے کہ پتلی جڑ بلکل سیدھی رہے موزوں حالات میں پودا مطلوبہ جگہ پر لگانے کے قابل ہو جاتا ہے پولی تھین بیگ میں جب پودا تین ماہ کا ہو جاتا ہے تو اس کی جڑیں زمین میں جانا شروع ہو جاتی ہیں س وقت پودوں کی جڑوں کی تراش خراش اور کٹائی ضروری ہو جاتی ہے اس عمل کے پودے کو اچھی طرح پانی دیں تاکہ وہ Shock کی حالت میں سنبھل جائے۔پولی بیگ میں اگائے ہوئے پودوں کی چھانٹی بھی ضروری ہے۔
اقسام:        پاکستان میں سفیدے کی چار اقسام زیادہ اگائی جاتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(1 )یوکلپٹس کمیلڈولینسز:
درختوں کی تعداد اور رقبہ کے اعتبار سے یہ قسم سب سے زیادہ اگائی جارہی ہے کیونکہ آسٹریلیا کے مختلف علاقوں سے حاصل کی گئی اس کی مختلف ذیلی اقسام پاکستان کے زیادہ تر حصوں میں نہایت کامیاب رہی ہیں بڑھت اور پیداوار کے لحاظ سے یہ قسم سب سے آگے ہے بارانی علاقوں اور زرعی زمینوں پر یہی قسم سب سے زیادہ لگائی جا رہی ہے اور زمینداروں میںبہت مقبول ہو چکی ہے گرم موسم میں اس کی شاخوں اور تنے پر سے زیادہ تر چھال اتر جاتی ہے۔
(2 )یوکلپٹس سٹریوڈورا ©:               
یہ قسم زیبائشی مقاصد کے لئے استعمال کی جارہی ہے کیونکہ اس کا سفید رنگ والا سیدھا اور ملائم جلد والا تنا اور ہلکا چھتر بہت خوبصورت ہوتا ہے اور یگرپودوں پر کم سایہ کرتا ہے اس کے پتوں کو مسلنے سے کھٹی کے پتوں جیسی خوشبو نکلتی ہے۔موسم کے آغاز میں اس قسم کے درختوں کی تمام شاخوں اور تنوں پر سے سطح زمین تک گذشتہ سال کی چھال مکمل طور پر اتر جاتی ہے اور نئی چھال پیدا ہوتی ہے بعض ممالک خصوصاََبرازیل میں یہ قسم بڑے پیمانے پر ایندھن حاصل کرنے کے لئے لگائی جاتی ہے۔
(3 )یوکلپٹس ٹیریٹی کورنس:              
یہ قسم بتائی گئی قسم سے مشابہت رکھتی ہے تا ہم میدانی علاقوں میں اس کے تنے سیدھا پن اور بڑھنے کی رفتا ر یوکلپٹس کمیلڈولینسز کے مقابلے میں کم تر ہے یہ قسم کم گرم میدانی علاقوں اور چار پانچ ہزار فٹ تک بلند پہاڑوں میں بہتر ثابت ہوتی ہے اس کے پتوں میں خوشبو دار تیل کی شرح پہلے بتائی گئی قسم کے مقابلے میںزیادہ ہے اس کی شاخوں اور کم عمر کے تنے سے چھال اترتی ہے تین چار سال زیادہ عمر کے پودوں کی چھال کھردری اور بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔
(4 )یوکلپٹس مائیکروتھیکا
یہ قسم مندرجہ بالا تینوں قسموں کے مقابلے میں آہستہ بڑھتی ہے اور جسامت کے لحاظ سے بھی مقابلتاََ کم ہے لیکن اوپر بتائی گئی اقسام کے مقابلے میں سب سے زیادہ سخت جان ہے اور پاکستان کے تمام میدانی اور نیم پہاڑی علاقوں لے لئے موزوں ہے یہ قسم کلر اور خشکی کو بخوبی برداشت کرتی ہے جس کی وجہ سے کم صلاحیت والی زمینوں اور آبپاشی کے تھوڑے و سائل والے علاقوں میں ایندھن حاصل کرنے کے لئے موزوں ہے اس کے پتے پر سیاہی مائل کھردری چھال ہوتی ہے جو کہ اترتی نہیں ہے ۔البتہ بلندی پر نکلنے والی شاخوں پر سے تھوڑی بہت چھال اترتی ہے۔
شجر کاری:                   
سفیدے کی شجر کاری کے لئے نرسری میں تیار کئے گئے سالم پودے استعمال کئے جاتے ہیں یہ پودے پولی تھین کے لفافوں میں دستیاب ہوتے ہیں اور ان کی عمر ایک ماہ سے ڈیڑھ سال تک ہوتی ہے آبپاشی کی مناسب سہولیات دستیاب ہوں تو سفیدہ کی شجر کاری سال میں کسی بھی موسم میں کی جا سکتی ہے دوسری صورت میں موسم بہار اور موسم برسات میں کی گئی شجر کاری کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوتے ہیں۔کم وبیش ایک فٹ لمبے پودے جن کے پورے تنے پر نئے پتے موجود ہوں شجر کاری کے لئے موزوں ہوتے ہیں کیونکہ ان کی جڑوں میں توانائی زیادہ ہوتی ہے اور ان کے زمین کے اندر مناسب انداز میں پھیلاو ¿ کے امکانات بڑے پودوں کے مقابلہ میں ہوتے ہیں تا ہم چھ انچ سے ڈیڑھ فٹ تک لمبائی کے پودے شجر کاری کے لئے بہتر پائے گئے ہیں زیادہ لمبے پودوں کی توا نائی مقابلتاََ کم ہوتی ہے اور ان کی جڑیں عموماََ ایک گچھے کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایسے پودوں میں ناکامی یا غیر تسلی بخش بڑھت کی شرح زیادہ ہوتی ہے زیادہ لمبے پودے عموماََ جھکے ہوتے ہیں اور ان کا تنا آخر کار درخت کا تنا نہیں بنتا بلکہ ان کے نچلے حصہ سے پھوٹنے والے شگوفے بڑھ کر درخت کی شکل اختیار کرتے ہیں۔آسٹریلوی ماہرین جنگلات کے مشاہدے کے مطابق نرسری میں زیادہ لمبے ہو جانے والے پودوں کو چھتری کا سہارا دے کر لگانے کی بجائے ان کے تنے کو 6 سے9 انچ کی لمبائی پر کاٹنے کے بعد لگانا بہتر ہے اس طرح جڑ اور تنے کا توازن بہتر ہو جاتا ہے شجر کاری کی کامیابی کے بعد پودے تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں اور ان کی اطراف سے بہت ساری باریک شاخیں نکلنے لگتی ہیں عام طور پر ان شاخوں کو کاٹ دیا جاتا ہے یہ عمل درست نہیں ہے اور اس سے پودے کمزور ہو کر آہستہ بڑھتے ہیں اور ان میں ٹیڑھا پن پیدا ہوسکتا ہے دراصل یہ پتلی شاخیں پودے کی صحت مند نشو ونما کے لئے نا گریز ہیں ۔کیونکہ
(1 ) ان پر موجود پتے جو خوراک پیدا کرتے ہیں وہ پودے کی جڑوں کی گہرائی اور پھیلاو ¿ میں اور بڑھت میں مدد گار ہوتی ہے جس کے نتیجے میں پودا زمین سے زیادہ خوراک اور پانی جذب کرتا ہے اور زمین میں زیادہ مضبوطی پاتا ہے ۔
(2 )ان شاخوں کی مہیا کردہ خوراک پودے کی چوڑائی کو بھی تقویت بخشتی ہے جس سے پودے کی عمودی بڑھت میں اضافہ ہوتا ہے۔
(3)ان شاخوں اور ان پر موجودان پر موجود پتوں کی وجہ سے پودے کا چھتر کا وزن بڑھتا ہے جس کے نتیجہ میں تنے کی موٹائی اور اس کی سختی میں اضافے کا رجحان پیدا ہوتا ہے ۔
(4 )یہ شاخیں محدود مدت کے لئے درکار ہوتی ہیں اس لئے پودے کی بلندی مزید بڑھنے اور اوپر کے حصہ میں نئی شاخیں پیدا ہونے کے بعد نچلی شاخیں قدرتی طور پر خشک ہو کر گر جاتی ہیں اور تنا خودبخود صاف ہو جاتا ہے۔
(5)اگر کسی پودے میں کم بلندی پر سے ایک سے زیادہ تنے بننے کا امکان ہو تو ان میں سے بہتر شاخ کو بچا کر باقی شاخوں کو کاٹنا ضروری ہے ۔
پودے لگانے کا طریقہ:                     
کسی قسم کی زمین اور کسی بھی موسم میں سفید ے کے پودے لگانے سے پہلے تیز چاقو یا بلیڈ پولی تھین لفافے کو کاٹ کر مکمل طور پر الگ کر لینا چاہیے اس کے بعد تیار شدہ گڑھے میں اس گاچی کو اس طرح رکھا جائے کہ گڑھے میں مٹی ڈالنے کے بعد پودے کی جڑ اور تنے کے ملاپ والا حصہ مٹی کی سطح کے برابر آئے ۔بڑے پودے کی صورت میں یہ حصہ ایک یا دو انچ گہرا دبانا بہتر رہتا ہے البتہ کسی بھی صورت میں اسے مٹی سے باہر نہیں ہونا چاہے بعض نرسریوں میں پو لی تھین لفافے بھرنے کے لئے بھربھری مٹی استعمال کی جاتی ہے ان لفافوں کو مکمل طور پر الگ کرنے سے مٹی بکھرنے اور جڑیں ننگی ہو جانے کا اندیشہ ہو تا ہے ایسی صورت میں لفافے کے صرف پیندا ہی کاٹ کر الگ کرنا چاہیے ۔پودا لگانے کے لئے گڑھا تیار کرتے وقت جڑی بوٹیاں ،پتھر اور ملبہ وغیرہ مکمل طور پر ہٹا دیا جائے ۔گھاس اور دب کی بہتات کی صورت میں گڑھے کے اردگرد بھی گہری گوڈی ضروری ہے کیونکہ سفیدہ اپنی تمام خوبیوں کے باوجود گھاس اور دب والی زمین میں خاطر خواہ نتائج نہیں دیتا گڑھے کی گہرائی کم از کم ایک فٹ اور قطر ڈیڑھ فٹ رکھنا چاہیے۔مٹی ،ریتلی،چکنی یا پتھریلی ہونے کی صورت میں بھل یا میرا مٹی گڑھے کو بھرنے کے لئے استعمال کی جائے ۔کھاد ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ بھرنے کے بعد گڑھے میں پودے کو کم از کم چا ر گیلن پانی ڈالنے کی گنجائش ہونی چاہیے مختلف قسم کی جگہوں پر پودے لگانے کے مختلف طریقے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
بارانی علاقوں :              
چونکہ ہیاں آبپاشی کا انتظام نہیں ہے اور ہاتھ سے پانی دینا مہنگا ہوتا ہے ۔پودے لگانے کے لئے گڑھے اس طرح بنائے جائیں کہ بارش کے پانی سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس مقصد کے لئے پودا لگانے کے بعد گڑھے کے گرد مٹی اس طرح لگائی جائے کہ پودے سے اوپر کی ڈھلوان والی جانب کھلی ہو تاکہ بارش کا پانی گڑھے میں آ سکے اور پودے سے نچلی ڈھلوان کی طرف گولائی میں مٹی کا بند بنایا جائے ۔تاکہ گڑھے میں آنے والے پانی کو گڑھے ہی میں روکا جا سکے۔
میدانی علاقوں :            
جہاں آبپاشی کی سہولیات موجود ہوں ۔سفیدے کے پودے مندرجہ ذیل نمونوں پر لگائے جاسکتے ہیں۔
 ۔قطاروں میں:             
اس صورت میں اگر دستی آبیاری کرنی ہو تو پودوں کو گڑھوں میں لگایا جاتا ہے اور گڑھے میں پانی دینے کی گنجائش پہلے بتائے گئے طریقہ کے برابر رکھی جاتی ہے البتہ مٹی گڑھے کے گرد بند کی شکل میں لگائی جاتی ہیں اگر نالی کے ذریعے پانی دینا ہو تو نالی کے کنارے تقریباََ تین انچ نیچے سلاٹ بنا کر ان میں گاچی سے قدر بڑا گڑھا بنا کر پودے لگائے جاتے ہیں ۔
 ۔ذخیرے کی شکل میں:   
ذخیرے کی صورت میں پودوں کو پانی کیاریوں میں دیا جاسکتا ہے اور نالیوں کے ذریعے بھی ۔ اگر کیاریاں بنائی جائیں تو گڑھوں کے گرد بند نہ بنائے جائیں ۔بصورت دیگر اوپر دئیے گئے طریقے کے مطابق پودے لگائے جائیں۔
 ۔سیم یا موسمی کھڑے پانی والی جگہ میں:   
ان جگہوں ہر گڑھوں یا نالیوں کی بجائے پودے مٹی کی ایک سے ڈیڑھ فٹ کی بلند ڈھیریوں لگائے جاتے ہیں تا کہ زیادہ نمی کے موسم میں پودے کی جڑوں کو سانس لینے کے لئے ہوا ملتی ہے رفتہ رفتہ پودے کی جڑیں نیچے زمین میں بھی سرایت کر جاتی ہیں۔
 ۔فاصلہ:    
تجرباتی طور پر سفیدے کی پانچ پانچ فٹ پر شجرکاری کامیاب پائی گئی لیکن اس صورت میں بعض پودے دب جاتے ہیں اس لئے ذخیرے کی شجرکاری کے کئے کم از کم فاصلہ 6 فٹ تجویز کیا جاتا ہے ۔قطاروں میں لگانے کے لئے البتہ پودے 5 فٹ پر لگائے جا سکتے ہیں کیونکہ قطاروں کا درمیانی فاصلہ زیادہ ہوتا ہے۔
                زراعت کے ساتھ مخلوط شجر کاری کے لئے سفیدے کو کھیتوں کے کناروں پر یا کھیتوں کے اندر تیس سے پچاس فٹ کے فاصلے پر قطاروں میں لگانا بہتر ہے۔
۔احتیاط اور حفاظت:                        پودے کو پانچ چھ فٹ بلندہونے تک ان کو گھاس اور جڑ ی بوٹیوں سے محفوظ رکھا جائے چونکہ بکریاں اور اونٹ سفیدے کے پودوں کو کھاتے ہیں اس لئے پودوں کو مویشیوں سے بچایا جائے۔
۔بڑھت پیداوار:
کسی بھی درخت کی کوئی ایک قسم ہر طرح کے حالات میں مساوی پیدا وار نہیں دے سکتی ۔اس طرح سفیدہ کی کسی ایک قسم سے بارانی ،میدانی ،دریائی علاقوں یا مخلوط شجر کاری میں ایک ہی پیداوار دینے کی تواقع نہیں کی جاسکتی تا ہم تجربات اور مشاہدات سے مندرجہ ذیل اعدادو شمار حاصل ہوئے ہیں۔
یوکلپٹس کمیلڈولینسز کے پنجاب میں لگے ہوئے مختلف نہری ذخیروں میں سفیدہ 6 فٹ6x فٹ،6 فٹ 10x فٹ اور 10 فٹ10x فٹ پر لگایا گیا تھا۔ان ذخیروں میں بعض ضروریات کے لئے چھوٹی عمر کے پودوں کی کٹائی یا چھدرائی بھی ہوتی رہی دو سے سے سولہ سال کی عمر تک فصل کے نمائندہ حصوں کی کٹائی کرنے کے بعد حاصل ہونے والی لکڑی کی مکمل پیمائش کی جاتی رہی۔اس کے علاوہ پودوں کی اوسط اونچائی اور قطر کی پیمائش بھی کی گئی ۔اس تجربہ مین پانچ سال زیادہ سے زیادہ مشترکہ عمر تھی جس پر تینوں فاصلوں پر لگے ہوئے درختوں پر مشاہدات کئے گئے ۔ذیل میں پیمائش اور پیداوار کا موازنہ دیا گیا ہے۔
فاصلہ                         عمر                             پیداوار فی ایکڑ                                بلندی                         اوسط لپیٹ
6x6 فٹ                    5 سال                       2278 مکعب فٹ                           51 فٹ                      15.3 انچ
10x6 فٹ  5 سال                       1856 مکعب فٹ                           48 فٹ                      15.3 انچ
10x10 فٹ               5سال                        1340 مکعب فٹ                            51 فٹ                      15.85 انچ
                اس طرح دیکھا جائے تو پنجاب کے نہری جنگلات میں اوسط سالانہ پیداوار 2278 مکعب فٹ فی ایکڑ حاصل کی گئی ۔دیگر مشاہدات سے ظاہر ہوا ہے کہ چھ انچ قطر اور پچاس فٹ کی بلندی والے سفیدے سے 4.3 مکعب فٹ لکڑی حاصل ہو سکتی ہے جبکہ ایک مکعب فٹ خشک لکڑی کا وزن 18 کلو گرام ہو تا ہے تا زہ یعنی گیلی لکڑی کا وزن اس سے زیادہ ہو تا ہے ۔
صفائی شاخ تراشی:
 اگر سفیدہ ذخیرہ کی صورت میں لگایا جائے تو کھیت کی جڑی بوٹیوں کو ہر سال تلف کر دینے سے پیداوار بڑھ جاتی ہے ۔سفیدہ کا تنا عموماََ کمزور ہوتا ہے اس لئے اس کی اس طرح شاخ تراشی کرنی چاہیے کہ اس کا تنا سیدھا رہے ۔شاخ تراشی کسی تیز دھار آلے یا کلہاڑی سے کی جائے اور صرف اتنی شاخیں کاٹی جائیں جس سے پودا سیدھا ہو جائے مکمل شاخ تراشی نہیں کرنی چاہیے۔
نمایاں خصوصیات:          
بیماریاں:
پیداوار : بڑی تیز بڑھوتری ، اوسط MAI   10 to 15 m/ha/yr کیو بک میٹر فی ہیکٹر سالانہ
لکڑی کی خصوصیات :
دانہ : بل دار آپس میں جکھڑے ہوئے،درمیانہ کھردرا، غیر ہموار لچکدار
رنگ :گیلی لکڑی ہلکی سبز،سخت لکڑی ہلکی بھوری،
کثا فت : sg 0.78 ۔ کلوریز کی مقدار 4800کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی  ©:سخت ۔سکڑنے پھیلنے والا اور لچکدا
 ۔ایندھن کے نقطہ نظر سے سفیدے کی اہمیت:
مکمل طور سے جلنے پر سفید ے کی ایک کلو گرام لکڑی 4800 کلو حرارے مہیاکرتی ہے۔
استعمالات:
سفیدے کی کچی لکڑی ،ہلکی خاکستری ،پکی لکڑی سرخی بھوری چمکدار اور بھاری ہوتی ہے ۔اس کا اوسط وزن،ہوا میں خشک ہونے کی صورت میں 0.705 گرام فی کیوبک سینٹی میٹر ہوتا ہے اس کا گرین پیچیدہ باہم پیوست ہوتا ہے ۔لکڑی اوسط درجہ کی کھردری یا کسی حد تک ہموار بافت والی اور مسامدار ہوتی ہے اس پر بڑھوتی کے دائرے نمایاں نہیں ہوے۔لکڑی پر نفیس دھاریاں ہوتی ہیں جو کھلی آنکھ سے دیکی جاسکتی ہیں اگر لکڑی کو کسی چھت کے نیچے رکھا جائے تو یہ پائیدار ہوتی ہے کچی لکڑی کو دیمک تباہ کر دیتی ہے سفیدہ کی لکڑی کریٹ سازی،کاغذسازی فرنیچر سازی فرش اور دیواروں کی پینلنگ میں استعمال ہوتی ہے اس کا تیل صابن سازی اور مچھر مار دوائیوں میں استعمال ہو تا ہے ۔
 استعمال ©:ایندھن،چارکول،فرنیچر،پرفیومleaves،shelterbelt،مگس بانی، ،فائبر بورڈ اور سامان کے دستے، لکڑی بہترین ہوتی ہے اس سے نیلی گوند حا صل ہوتی ہے
سیم تھور زدہ زمین کا علاج سفیدہ
یہ سدا بہار اور تیزبڑھت والادرخت ہے۔
یہ تمام سال کسی بھی موسم میں لگایا جا سکتا ہے ۔
ذخیرہ کی صورت اسے 10x10 فٹ اور قطاروں کی صورت میں 1 سے10 فٹ کے فاصلے پر لگانا زیادہ بہتر ہے۔
یہ بارانی اور دیگر کم پیداواری صلاحیت کی زمینوں میں کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے۔
یہ کلر اور سیم زدہ زمین کے لئے موزوں ہے۔
اس کی لکڑی جلانے کے لئے نہایت موزوں ہے اور اس سے کوئلہ بھی تیار کیا جاسکتا ہے ۔
اس سے سیدھیاں بلیاں حاصل ہوتی ہیں جہ کہ عمارتیں بنانے کے کام اور کھمبوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ۔
اس کی لکڑی کاغذ ،چپ بورڈ اور ہارڈبورڈ کی صنعت کے لئے بہترین ہے
یہ 14 سال کی عمر میں 10 من لکڑی دیتا ہے جو 110 روپے من کے حساب سے آسانی بک جاتی ہے



Erythroxylum monogynum


٬ ارتھ روکسی لون Erythroxylum monogynum
 خاندان :۔لیناسیاLinaceae
Lina1Tدیگرحوالہ جات: ٬ای انڈئکم٬سیٹھیا انڈیکا,(Syn:- E.indicum Sethia Indica) ,
bastard sandal or red cedar
 مستعمل نام:۔ ڈیودارا ٬ ِدیوادارم٬ ڈیوداری,Telgu:Deaodari Kannada:- Devadarum Tamil:- Devdara
تعارف:۔ایک چھوٹا سا درخت ہوتا ہے۔ جس کی ا چھال ڈارک ڈارک براو ¿ن ہوتی ہے۔ اور بہت ہی سخت سرخی مائل براو ¿ن لکڑی ہوتی ہے۔
پتّے:۔پتّے عام طور پر لمبے بیضوی سے ہوتے ہیں۔آخری سرا منفرجہ زاویہ بناتا ہے۔پتّے2 inch تک لمبے ہوتے ہیں۔رویں دار ہوتے ہیں ایک ہی ڈنڈی پر مخالف


 
 
اطراف میں لگتے ہیں۔اور سب کا سائز یکساں ہی ہوتا ہے ۔
پھول:۔پھول ایک ہی ڈنڈی پر ایک ہی ایکسل پرچھوٹے سفید اور5 to 6 پنکھڑیوں والے ہوتے ہیں۔
پھل:۔ایک چھوٹا ایک ہی بیج والا جھکا ہوا سا ہوتا ہے۔ جو پکنے کے وقت سُرخ ہو جاتا ہے۔
ڈسٹری بیوشن:۔ یہ انڈیا کے خشک علاقے اور جنگلوں کا درخت ہے۔ان جنگلوں میں عام پاتا ہے۔

استعمالات:۔اس کے پتّے اور چھوٹی نازک کونپلیںکھنا پکانے کے سالن بنانے کے کام آتی ہیں۔

Erythrina suberosa گل ِ نشتر


نباتاتی نام : ارتھرینا سبروزاBotanical Name:Erythrina suberosa Roxb
خاندان ©: فابیسی Family: Fabaceae 
انگریزی نام:کورل ٹری  Coral Tree
دیسی نام: گل ِ نشترGul-e-Nishtar
ابتدائی مسکن(ارتقائ) : برصغیر،پاکستان میںمغربی پنجاب راوی کے کناروں پر قابلِ اگاو ¿ ہے۔
قسم:سدا بہار



شکل:                         قد:15-12میٹر
پتے:پتے مرکب اور پتیاں نوکیلی ہیں،پتیاں20-10 سینٹی میٹر لمبی چوڑی،پتے تھوڑے عرصے کے لئے کانٹے دار ہوتے ہیں،چھال Croky کھرائی سی Cracked ۔شاخیں اور چھالarmed زردی مائل سفیدکانٹا دار۔
پھولوں کا رنگ:سرخ                        پھول آنے کا وقت: فروری
پھل:پھلیاں بڑی اور16-12 سینٹی میٹر لمبی ،جون اور جولائی میں پکتی ہیں
کاشت:بیج , اور غیر جنسی طریقے دونوں سے،۔
جگہ کا انتخاب:ایک غیر روادار درخت جو بڑھتا ہے ریتلی میرا زمینوںپر مرطوب،ذیلی گرم مرطوب جیسی آب و ہوا ہو ۔بارش کی حد 800 میٹر سالانہ۔درجہ حرارت کی حد 40-2ڈگری سینٹی گریڈ ،سطح سمندر سے بلندی 800 میٹر
نمایاں خصوصیات:
شاخ تراشی:
بیماریاں:
پیداوار: تیز بڑھوتری ، قطر ایک میڑ چالیس سالوں،
لکڑی کی خصوصیات :
دانہ : آسان ہموار،سیدھا
رنگ : ہلکا ،
کثا فت: لکڑی ہلکی ہوتی ہے ۔ کلوریز کی مقدار 4800 کلوریز فی کلو گرام
مظبوطی : نرم اور نا پائیدار،لیکن ریشہ داراورمضبوط
استعمال ©:ایندھن،نائٹروجنFixing،زیبائشی اور چھال سے بخار کی دوائی بنائی جاتی ہے


Indian Coral tree/Flame tree (Erythrina Stricta Subirosa), this tree bears different coloured flowers and is often called "Rangeela": or colourful.