Thursday, 8 November 2012

Citrus diseases and their control.

Citrus diseases and their control.

By: Muhammad Imran Khan
               Citrus is the number one fruit in Pakistan as for as it production is concerned.  It is grown in many districts of Pakistan. Sargodha is number one of them. It is exported to many countries mainly Australia, UAE, EU, china, Saudi Arabia, Russia and others. Some of the fruit is rejected for export due to its diseases and pesticidal residues. The diseases cause loss of farmer because they lower the per acre production and secondly market value is also greatly reduced .diseased plants cannot bear good fruit and fruit drop is also caused. Weak plants need great care and protection. The use of good cultural practices can be helpful for controlling diseases and making the plants grow vigorously. Over irrigation and absence pf proper drainage system in monsoon is a big reason for the attack of various diseases. Nutrients deficiency is also not properly handled. Mix cropping or growing other crops in citrus orchards is also common practice of our farmers which should also be avoided. Because different crops are carrying different insects pests and pathogens with them. After the harvest of that crop those insect pests and pathogens migrate to the citrus plants. There is no or very less concept of wind breaks. Windbreaks are very important because they control the pollination process flower and fruit drop. The important citrus diseases are following.
FUNGAL DISEASES
(i) Bark Splitting / Gumosis Disease
  • Attack at the branches and trunk
  • Vertical cracks on the bark 
  • Greasy/water soaked look 
  • Release of gum like exudation 
Control 
  • Paste of fungicide (1 part) in lime (20 parts) with sufficient water to make a workable paste
  • By avoiding the injury to the plants 
(ii) Damping Off (Rhizoctonia Solanai)
  • Damping of seedling before or after emergence 
  • At the nursery stage 
  • Many toppled seedlings 
Control 
  • Use un-infested soil 
  • Disinfect with fumigents 
BACTERIAL DISEASES
(i ) Citrus  canker

  • Yellowish spots on leaves, twigs, petiols and branches
  • Small and enlarged lesions 

Control

  • Prune and burn the affected plant parts 
  • Spray the Bordeaux mixture and avoid jutti khatti  as windbreak
  • Apply Bordeaux paste on the stem
 (ii) Citrus Decline

  • Pathological (Root rot nematode, Bark splitting, Virus disease etc.) 
  • Nutritional  disorder
  • Poor cultural practices 
  • Poor selection of the rootstock 
  • Bad aeration of the roots  
Control

  • Control of the disease will be site specific according to the cause of the disease.
VIRAL DISEASES

(i) Citrus Tristeza Virus (CTV)

  • The most destructive disease 

Control

  • No specific control found yet
  • Use disease free rootstock

Kitchen gardening / Vegetables production






Raddish 









Peas






I Would like to welcome all to get involved in kitchen gardeing and offer few important tips for new gardeners, kitchen gardening entusiasts, amatures.
* Kithcen gardeing is usually understood a hard practice so most of people avoid doing it. Don't be among them. It would be so easy when you will be used to it as for "practice makes a man perfect".
* With consistancy and tolerance you will come to get a lot of success and sharpness.
* Just start growing and keep it on untill you get achieved produce.
* Planning is offcourse key factor in success, so plann well.
* Leran from others experiances, so try different gardeing resources like clubs, websites, journals, books and magazines etc.
* Have a calender or table for planning when to get seeds and when to sow.
* Remember to have a time to see your garden or planters specific for this purpose prefferably daily.
* Ask, asking will let you know what you shouls also ask,what you never thought off, ask from all buddies how they manage ,what are they planning whats techniques they found extraordinary.
* As we know what are the likes and dislikes of our close friends similarly plants do have mood and feelings, some feel bad when irrigated frequntly other love frequent irrigation.
* There grew a cucmber in a barren plot beside my home ,I managed to bring the vine to come to my wall, we enjoyed cucumbers throught the season for free just by offering some attention, SO a single vine of any cucrbitaceae is enough to feed a family having 5-7 memebrs in a season if nourshed carefully.



Vegetables production 
Types of vegetables 
Seasons for vegetables 
How to grow 
Preparing media and beds





Growing in contaiers/pots  








Brassica (Srsoon)

Spinach 

















Salad



















Onions 












Organic Pest Control Formula 


Neem oil . ipm
5 kg neem leaves 5kg  2-3 lit water , dip in water overnight, mix all other gredients ,
Put this mix in 20 lit water,.  It should be kept atleast 15 days, temp at 40 dcg , dark brown colour mix wil b prepared,.. take 1 lit of yhis mix in 4 lit water ,… this is for 5 lit tank ,…. This is good control for almost all insects except worms,…. Will be applicable at almost every stage ,…
Black piper 50 g powder
Garlic 50g paste
Ginjer 50g  paste

Tobacco half kg powder   

گاجر کی کاشت
گاجر قدیم ترین سبزیوں میں سے ایک اہم سبزی ہے۔ اس کو انگریزی میں (Carrot) کہتے ہیں۔ یہ فصل پوری دنیا میں کاشت کی جاتی ہے۔ گاجر کی کاشت پورے پنجاب میں کی جاتی ہے۔ گاجر موسم سرما کی ایک خوش ذائقہ اور غذائیت سے بھرپور سبزی ہے۔ طبی لحاظ سے اس کے بیج خوشبو، ہاضمہ، دائمی پیچش، پیٹ کے کیڑوں اور گردوں کی بیماری کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا جوس جو مقبول عام مشروب ہے۔ پیشاب کی بندش، یورک ایسڈ کی زیادتی، وٹامن اے کی کمی اور آنکھوں کے لئے ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے۔ گاجر میں چینی کی مقدار گلوکوز اور فرکٹوز کے مقابلہ میں دس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ گاجر مختلف طریقوں سے پکا کر استعمال ہوتی ہے اور اسے خشک اور بند ڈبوں میں پیک کر کے بعد میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گاجر سے مربہ، اچار، جام اور حلوہ بھی تیار کیا جاتا ہے۔

اقسام اور وقت کاشت:۔ پاکستان میں بہت سی اقسام کاشت کی جاتی ہیں جن میں سے کچھ مقامی ہیں اور کچھ درآمد شدہ۔ لیکن گاجر کی منظور شدہ ترقی دادہ قسم “T-29” ہے جس کی پیداواری صلاحیت 16 سے 20 ٹن فی ایکڑ ہے۔ یہ قسم اپنی خوبصورت رنگت، سائز اور ذائقہ کے لحاظ سے کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ اس کی اگیتی کاشت ستمبر سے شروع ہو کر ماہ اکتوبر کے آخر تک جاری رہتی ہے۔ یورپین اقسام کی کاشت نومبر اور دسمبر میں کرنی چاہیے۔

آب و ہوا:۔ مولی کی طرح گاجر بھی سرد آب و ہوا کی فصل ہے لہٰذا بیج کے اگاؤ کے لئے 7 تا 23 ڈگری سینٹی گریڈ مثالی درجہ حرارت ہے۔ جبکہ زیادہ پیداوار اور اچھی کوالٹی کی گاجر کے لئے 20 تا 25 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت انتہائی مناسب ہے۔ اس سے بہت زیادہ یا کم درجہ حرارت پیداوار، سائز اور رنگت کو متاثر کرتا ہے۔ تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ موسمی تغیر و تبدل زمین کے مقابلہ میں زیادہ فیصلہ کن کردار کا حامل ہے۔ زیادہ درجہ حرارت پر گاجر سائز میں چھوٹی، کوالٹی اور رنگت میں کم تر ہوتی ہے۔

زمین کا انتخاب و تیاری:۔ گاجر کی اچھی کوالٹی اور بہتر پیداوار کے حصول کیلئے بُھربُھری زرخیز اور لیزر سے ہموار میرا زمین درکار ہوتی ہے۔ جبکہ اگیتی پیداوار کیلئے ریتلی میرا زمین موزوں ہے۔ گاجر لمبی جڑ والی فصل ہے اس لئے زمین بوائی سے پہلے کافی گہرائی تک اچھی طرح تیار ہونی چاہیے۔ اگر اس میں مٹی کے ڈلے اور گوبر کی کچی کھاد موجود ہو تو گاجر کی رنگت اور شکل پوری طرح نشوونما نہیں پا سکتی۔ لہٰذا زمین کا خوب گہرائی تک نرم اور بُھربُھرا ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کیلئے وتر حالت میں زمین کو 3 تا 4 مرتبہ گہرا ہل چلا کر اور سہاگہ دے کر اچھی طرح تیار کر لیا جائے۔ زمین کی تیاری سے قبل داب سسٹم کے ذریعہ جڑی بوٹیوں کی تلفی کر لی جائے جس سے پیداوار پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

شرح بیج:۔ اچھی کوالٹی کا صحتمند اور زیادہ روئیدگی والا بیج جو جڑی بوٹیوں سے پاک ہو استعمال کرنا چاہیے ۔ ادارہ تحقیقات سبزیات کے تجربات کی روشنی میں 6 تا 8 کلو گرام بیج فی ایکڑ کافی ہوتا ہے۔ بیج کو ہمیشہ پھپھوند کش زہر لگا کر استعمال کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے تھائیوفنیٹ میتھائل یا بینومل بحساب 2 گرام فی کلو گرام بیج استعمال کریں۔

نامیاتی کھادیں:۔ اچھی طرح گلی سڑی کھاد نہ صرف زیادہ پیداوار کا سبب بنتی ہے بلکہ کیمیائی کھادوں کے استعمال کی ضرورت بھی کم کر دیتی ہے لہٰذا 20 ٹن فی ایکڑ گوبر کی گلی سڑی کھاد دو ماہ پہلے زمین میں یکساں بکھیر کر 20 تا 25 سینٹی میٹر کی گہرائی تک اچھی طرح مکس کر دیں۔ اس سے زمین کی طبعی حالت بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ گاجر کی مارکیٹ کوالٹی بھی بہت بہتر ہو جائے گی۔

کیمیائی کھادیں:۔ گاجر کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کیلئے 45 کلوگرام نائٹروجن،45 کلوگرام فاسفورس اور 25 کلوگرام پوٹاش کی ضرورت ہوتی ہے۔ فاسفورس اور نائٹروجن کا اکٹھا استعمال پیداوار پر مثبت اثرات کا حامل ہے لہٰذا زمین کی تیاری کے دوران2 بوری ڈی اے پی اور 1 بوری پوٹاش فی ایکڑ یکساں بکھیر کر زمین میں اچھی طرح ملا دیں۔ فصل کے اگاؤ کے ایک ماہ بعد 1 بوری یوریا فی ایکڑ ڈال دیں۔

طریقہ کاشت و آبپاشی:۔ اچھی طرح ہموار اور تیار شدہ زمین میں 75 سینٹی میٹر (اڑھائی فٹ) کے فاصلہ پر پٹڑیاں بنا کر دونوں کناروں پر ایک سینٹی میٹر گہرائی میں بیج کیرا کر کے مٹی سے ڈھانپ دیں اور فوراً پانی لگا دیں۔ یاد رہے کہ پانی پٹڑیوں پر ہر گز نہ چڑھے صرف پانی کی نمی اسے ملتی رہے۔ شروع میں ہفتہ میں 2 مرتبہ آبپاشی کر کے بہتر اگاؤ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گاجر کا اگاؤ عام طور پر 7 تا8 دن میں شروع ہو جاتا ہے لیکن اگر بیج 12 تا 24 گھنٹے بھگو لیا جائے تو اگاؤ جلدی شروع ہو جاتا ہے۔ اگاؤ کے بعد فصل کی ضرورت کے مطابق وقفہ بڑھاتے جائیں لیکن ہفتہ وار آبپاشی بہتر رہتی ہے۔

چھدرائی اور جڑی بوٹیاں:۔ گاجر کی کوالٹی میں چھدرائی کا بہت اہم رول ہے۔ مناسب چھدرائی سے مارکیٹ کے قابل پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے لہٰذا جب پودے 5 تا 6 سینٹی میٹر اونچے ہو جائیں تو چھدرائی کے ذریعے پودوں کا درمیانی فاصلہ 2 تا5 سینٹی میٹر کر دینا چاہیے۔ اچھی کوالٹی اور زیادہ پیداوار کے حصول کیلئے جڑی بوٹیوں کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔ بوائی کے بعد چھ ہفتو ں تک جڑی بوٹیوں سے پاک کھیت نہ صرف زیادہ پیداوار کا سبب بنتے ہیں بلکہ اچھی کوالٹی کے سبب منڈی میں قیمت بھی زیادہ ملتی ہے۔ گاجر میں پینڈی میتھلین بحساب 1 تا 1.5 لٹر فی ایکڑ بوائی کے فوراً بعد تر وتر حالت میں سپرے کرنے سے جڑی بوٹیوں کا تدارک ممکن ہے۔
نقصان دہ کیڑے و بیماریاں:۔ گاجر کی فصل پر کبھی کبھار سفید مکھی اور امریکن سنڈی حملہ آور ہوتی ہے اسی طرح سفوفی پھپھوند، گاجر کا گلاؤ، مرجھاؤ، اگیتا جھلساؤ اور پچھیتا جھلساؤ اس کی اہم بیماریاں ہیں۔ عام طور پر ان بیماریوں کا حملہ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ گاجر کی فصل پر نقصان رساں کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ ہونے پر محکمہ زراعت (توسیع و پیسٹ وارننگ) کے مقامی عملہ سے رابطہ کر کے مناسب زہروں کا سپرے کریں۔
برداشت:۔ گاجر کی برداشت اس وقت کرنی چاہیے جب گاجر اپنا پورا سائز حاصل کر لے۔ عام طور پر گاجر 100 تا 120 دن بعد پوری طرح تیار ہو جاتی ہے لیکن اگیتی اور روزمرہ استعمال کیلئے تقریباً 80 تا 90دن بعد جب اس کی موٹائی 2 تا 4 سینٹی میٹر ہوجاتی ہے تو برداشت کی جا سکتی ہے۔ گاجر برداشت کرنے سے 2 ہفتہ پیشتر آبپاشی بند کر دینی چاہیے تاکہ زمین وتر حالت میں آ جائے اور برداشت کرنے میں سہولت ہو


----------

گھر میں آسانی سے اروی کا پودا لگانے کا طریقہ

آج میں آپ کو اروی کا پودا لگانے کا آسان طریقہ بتائوں گا۔ اور میں یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ذیادہ تر لوگ یہ اِس پودے کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتے ہوں گے۔ اروی کے نام سے تو تمام لوگ ہی واقف ہوں گے۔ یہ آلو کی طرح ہوتی ہے لیکن لیس دار ہوتی ہے۔ اِس کے بہت فائدے ہیں اور یہ صحت کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ نہ صرف اوری بلکہ اِس کے پتے بھی بہت فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اور اِس کے پتوں سے بھی بہت سے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ اِس لیے نہ صرف یہ اروی حاصل کرنے کے لیے کاشت کیا جاتا ہے بلکہ یہ اروی کے پتے حاص کرنے کے لیے بھی کاشت کیا جاتا ہے۔
اب میں آپ کو اروی کے پودے کو اگانے کا طریقہ بتائوں گا۔ اِس کو اگانا نہایت آسان ہے۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ پودا پورا سال کسی بھی موسم میں لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اِس پودے کا پسندیدہ موسم گرمیوں کا ہے۔ گرمیوں میں یہ پودا اچھے طریقے سے پھلتا پھولتا ہے اور اروی بھی ذیادہ پیدا کرتا ہے جب کہ سردیوں میں اِس کا پھلنا پھولنا سست رہتا ہے اور یہ اروی بھی ذیادہ پیدا نہیں کرتا۔ اب سب سے پہلے آپ نے کرنا یہ ہے کہ ایک اروی لے لینی ہے۔ ایک اروی سے ہم صرف ایک پودا ہی اگا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں پکنے کے لیے اروی لائی گئی ہے تو آپ اُس میں سے ایک چھوٹی سے اروی لے لیں۔ جی ہاں چھوٹی اروی سے ہی پودا اگ آتا ہے تو بڑی اروی لینے کی کیا ضرورت ہے آپ بڑی اوری کو پکانے کے لیے استعمال کر لیں۔ اب ایک چھوٹی اروی لینے کے بعد آپ کو مٹی تیار کرنی ہے جس میں ہم یہ اروی لگائیں گے۔ آپ اروی زمین میں بھی لگا سکتے ہیں اور کسی کنٹینر یا گملے میں بھی لگا سکتے ہیں۔ اب ایسا کریں کہ آدھی مٹی لے لیں اور آدھی اورگینک کھاد لیں لیں۔ مٹی اور اورگینک کھاد کو اچھی طرح مکس کر لیں۔ اگر آپ کے پاس اورگینک کھاد نہیں ہے تو آپ اِس کی جگہ گوبر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اِن کو اچھی طرح مکس کرنے کے بعد آپ اس کھاد ملی مٹی کو گملے یا کسی بھی کنٹینر میں بھر دیں جس میں آپ نے اروی لگانی ہے۔ اِس کے بعد آپ گملے یا کنٹینر کی مٹی میں ایک سورخ کریں۔ سوراخ گہرا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر سوراخ ذیادہ گہرا ہوا تو اوری کے پودے کو باہر نکلے میں دشواری ہو گی۔ اب آپ اُس سوراخ میں اروی ڈال دیں اور پھر اُس کے اوپر مٹی ڈال دیں۔ مٹی ایسے ڈالیں کہ اروی کا کوئی بھی حصہ نظر نہ آئے۔ اِس کے بعد آپ اُس کو شاور کی مدد سے پانی دیں ۔ اگر آپ کے پاس شاور نہیں ہے تو پھر آرام آرام سے پانی دیں کہ کہیں اروی کے اوپر سے مٹی نہ ہٹ جائے۔
اسی طرح آپ اُس گملے میں روزانہ پانی ڈالیں۔ ایک ہفتے کے اندر اندر اروی کا پودا اگ آئے گا۔ ان شاء اللہ لیکن ایک ہفتے سے ذیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔
ایک بات یاد رکھیں کہ اروی کے پودے کو کسی ایسی جگہ رکھنا ہے جہاں ذیادہ دیر دھوپ نہ رہتی ہو۔ اُس کو کسی ایسی جگہ رکھیں جہاں پر صرف ایک یا دو گھنٹے دھوپ رہتی ہو یا پھر اس کو کسی ایسی جگہ رکھیں جہاں پر سورج کی روشنی کم پرتی ہو۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اروی کے پودے کو ذیادہ دھوپ پسند نہیں۔ اِس کے پتے ذیادہ دھوپ میں جل جاتے ہیں۔
اگر اور بات یہ ہے کہ اِس پودے کو پانی بہت اچھا لگتا ہے۔ اور لوگ اِس کو پانی میں بھی اگاتے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پانی میں اِس کی نشونما مٹی کی نسبت ذیادہ اچھی ہوتی ہے اور یہ ذیادہ اروی پیدا کرتا ہے۔ لیکن میں نے آپ کو صرف مٹی میں اگانے کا طریقہ بتایا ہے۔ اِس لیے آپ اِس کو مٹی میں ہی اگائیں۔ کیوں کہ اِس کو پانی بہت اچھا لگتا ہے اِس لیے آپ اِس کو روزانہ پانی دیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ گملے یا کنٹینر میں پانی کھڑا نہیں رہنا چاہیے۔ کیوں کہ مٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اِس پر پانی ذیادہ دیر تک کھڑا رہے تو اُس مٹی میں پودوں کی جریں گلنے لگ جاتی ہیں اور پودے مرجہا جاتے ہیں۔ اِس لیے آپ جس کنٹینر یا گملے میں پودا لگا رہے ہیں اُس میں پانی کے اخراج کا اچھا انتظام ہونا چاہیے۔
اروی کے پودے پر پھول بھی لگتے ہیں اور اُن پھولوں سے اروی کے بیج بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن ایسا ہونا بہت نایاب ہے۔

اروی کو لگانے کے دو سو دن بعد آپ اُس کو اکھار کر اُس کی جروں سے اوری حاصل کر سکتے ہیں۔ اروی حاصل کرنے کے بعد آپ اُس پودے کو دوبارہ وہاں ہی لگا دیں تو وہ اگ آئے گا۔

جب اروی کے پتے بڑے بڑے ہو جائیں تو آپ اُن کو پودے سے کاٹ لیں۔ آپ اروی کے پتوں سے مختلف لزیز پکوان بھی تیار کر سکتے ہیں۔

اروی کے پودے کو دوسرے نیوٹرینٹس کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اور پوٹاشیم آلو میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ آپ کے گھر میں جب بھی آلو چھیلے جائیں آپ اُس کے چھلکے اکھٹے کر کے دھوپ میں سکا لیں۔ جب وہ سوک جائیں تو اُس کو گرائینڈر میں ڈال کر پیس لیں۔ وہ پائوڈر بن جائے گا۔ اب آپ اُس پائوڈر کو کسی بوتل میں ڈال دیں اور اُس بوتل میں پانی بھی بھر لیں۔ اب اُس بوتل کا ڈھکن بند کر کے کہیں رکھیں دیں۔ ایک دن بعد وہ ایک پوٹاشیم سے بھرپور ذبردست کھاد بن جائے گی ۔ آپ وہ لیکوڈ کھاد اروی کے پودے میں ڈال دیں۔ اِس کھاد کو استعمال کرنے سے اروی کی پیداوار میں ازافہ ہو گا۔ یہ کھاد ہر چار ہفتوں بعد استعمال کریں۔

courtesy by organic kitchen gardening page


گھر میں ٹماٹر اُگائیے اور مہنگائی کو شکست دیجیے

وجہ فصلوں کی تباہی ہو یا ذخیرہ اندوزوں کی ہوس،سچ یہ ہے کہ سبزیوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے نچلے و متوسط طبقوں کو ازحد متاثر کیا۔ظاہر ہے،دس پندرہ ہزار روپے کمانے والا 200روپے کلو ٹماٹراور 100روپے کلو آلو خرید کر نہیں کھا سکتا۔ عام سبزیوں کی قیمتیں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔اس مہنگائی کا ایک توڑ یہ ہے کہ اپنے گھرکم از کم روزمرہ استعمال کی سبزیاں مثلاً ٹماٹر،آلو،پیاز،گوبھی،دھنیا،پودینہ اگا لی جائیں۔ان کا اگانا مشکل نہیں اور نہ ہی وسیع زمین کی ضرورت ہے،بس یہ
عمل تجربہ اور محنت مانگتا ہے۔

گھریلو کاشت کاری انسان کو دو اہم فوائد دیتی ہے:اول کم خرچ میں قیمتی سبزی میسّر آتی ہے۔دوم وہ فارمی سبزیوں سے زیادہ غذائیت رکھتی ہیں۔یہی فوائد مدنظر رکھ کر فی الوقت گھر میں ٹماٹر اگانے کا طریق کار پیش ہے۔ ٹماٹر کا پودا معتدل موسم میں پلتا بڑھتا ہے۔اگر درجہ حرارت 32 سینٹی گریڈ سے زیادہ یا 10سینٹی گریڈ سے کم ہو جائے،تو وہ صحیح طرح پرورش نہیں پاتا۔خصوصاً کہر یا پالا اسے تباہ کر دیتا ہے۔لہذا پودے کو کہر سے بچانا لازمی ہے۔ گرمی زیادہ ہو تو اس کا توڑ پودے کو زیادہ پانی دینا ہے۔تاہم پودے کو زیادہ نمی سے بھی بچائیے۔نمی اسے مختلف امراض کا نشانہ بنا ڈالتی ہے۔یاد رہے،نشونما پاتے پودے کو روزانہ کم ازکم چھ گھنٹے دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹماٹر کی 7500سے زائد اقسام وجود میں آ چکیں جن کے دو بڑے گروہ ہیں ۔غیر معین (Indeterminate) اور محدود (Determinate) ۔غیر معین اقسام اُگ کر مسلسل پھل دیتی ہیں تاایں کوئی بیماری یا کہر پودے کو مار ڈالےجبکہ محدود اقسام کے پودے صرف ایک دفعہ پھل دیتے اور پھر مر جاتے ہیں۔ آپ اپنی پسند کی قسم کا انتخاب کر سکتے ہیں۔اور اگر نوآموز ہیں ،تو بہتر ہے کہ شروع میں ایک دو پودے ہی لگائیے تاکہ تجربے سے جو اسباق ملیں ،ان کی مدد سے آپ خودکو مستند گھریلو کسان بنا سکیں۔ اب آئیے اُگانے کے مرحلے کی طرف!سب سے پہلے ا س گملے ،ڈبے،برتن،کریٹ،بالٹی وغیرہ کا انتخاب کیجیے جس میں پودا اگانا مقصود ہو۔اسے کم از کم 8 انچ گہرا ہونا چاہیے۔تاہم 16انچ گہرائی بہترین رہے گی۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ٹماٹر کا پودا پلاسٹک کے کسی ڈبے یا برتن میں لگائیے۔وجہ یہ کہ ایسا برتن گملے کے برعکس جلد نمی نہیں چوستا اور خشک ہونے میں دیر لگاتا ہے۔چونکہ ٹماٹر کا پودا پانی پسند کرتا ہے،لہذا وہ اس میں پنپتا ہے۔دوسرے پلاسٹک کے چھوٹے برتن عموماً گملوں کی نسبت سستے پڑتے ہیں۔ جب موزوں ڈبے یا برتن کا انتخاب کر لیں ،تو اس کا پیندا دیکھیے۔اگر اس میں سوراخ نہ ہوں ،تو چھوٹے چھوٹے چھ سات سوراخ کر دیجیے تاکہ مٹی میں پانی کھڑا نہ ہو۔جمع شدہ پانی پودے کو سڑا کر مار ڈالتا ہے۔تاہم سوراخ اتنے بڑے نہ ہوں کہ ساراپانی مٹی میں جذب ہوئے بغیر نکل جائے۔ اب ڈبا کھاد ملی مٹی سے بھر دیجیے۔پودے اگانے والی مٹی ہر نرسری سے مل جاتی ہے۔ڈبے میں باغ یا زمین کی مٹی نہ ڈالئیے کیونکہ اس میں اتنی غذائیت نہیں ہوتی کہ پودا پنپ سکے۔ یہ کام تکمیل پائے ،تو بیج بونے کا مرحلہ آتا ہے۔ٹماٹر کی من پسند قسم کے بیج بڑی نرسریوں سے مل سکتے ہیں۔راقم کے ایک دوست نے تو انوکھا گُر آزمایا۔انھوں نے ڈبے میں کھاد ملی مٹی بھری،اور اس میں عام ٹماٹر بو دیا۔ڈبا پھر کھڑکی پہ رکھ دیا تاکہ اسے دھوپ ملتی رہے۔پانی بھی باقاعدگی سے دیا گیا۔دو ہفتے بعد ٹماٹر سے پودا نکل آیا۔اب وہ موسم پہ رس بھرے پھل دیتا ہے۔ موسم سرما میں خصوصاً بیجوں سے پودا نکالنے کا یہ طریق بھی مروج ہے کہ پہلے انھیں چھوٹے سے گملے میں بویا جائے۔تاکہ جب سورج نکلے تو اسے باآسانی دھوپ کے سامنے رکھ سکیں ۔ورنہ وہ گرم کمرے میں ہی رہے۔جب پودا نکل آئے اور تھوڑا بڑا ہو چکے،تو پھر اسے بڑے ڈبے یا گملے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ ٹماٹر کا پودا خاصی نگہداشت مانگتا ہے۔نشونما پاتے ہوئے اسے کافی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔پانی دینے کا وقت جاننے کا آسان طریق یہ ہے کہ ڈبے یا گملے میں انگلی ڈالئیے۔اگر دو انچ تک مٹی خشک ملے،تو گویا پانی دینے کا سمّے آ پہنچا۔ دوسری اہم بات یہ کہ بڑھتے پودے کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔لہذا جب پودا پرورش پانے لگے،تو ڈبے میں بانس یا ڈنڈا نصب کیجیے اور اسے اس کے ساتھ پودا نرمی سے باندھ دیجیے تاکہ وہ بلند ہو سکے۔بانس مٹی میں گاڑتے ہوئے احتیاط کیجیے کہ وہ پودے کی جڑوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ٹماٹر کا پودا آٹھ فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ بڑھتے پودے کو خاصی غذائیت بھی درکار ہوتی ہے۔سو بہتر ہے کہ ہفتہ دس دن بعد ڈبے میں مناسب کھاد ڈال دیں۔یوں پودا تیزی سے نشوونما پائے گا۔ بڑھتے پودے کے جو پتے زرد ہو جائیں،انھیں توڑ ڈالئیے۔نیز بالائی شاخوں کو چھوڑ کر نیچے اگر ٹہنیاں نکلیں،تو انھیں بھی کاٹ دیں۔یوں پودے کے مرکزی تنے کو زیادہ غذائیت ملتی ہے اور وہ جلد بڑا ہوتا ہے۔ ٹماٹر کی قسم کے لحاظ سے پودے پر تین تا پانچ ماہ میں پھول نکل آتے ہیں۔چونکہ پودے پہ پولی نیشن(زیرگی)سے پھل لگتا ہے،لہٰذا بہتر ہے کہ پھول نکلنے کے بعد تین چار بار ڈبے کو ذرا زور سے ہلا دیں،تاکہ پھولوں کے نر و مادہ حصّے مل جائیں۔ پھول نکلنے کے بعد پودے کو پانی دینا کم کر دیں۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ہفتے تک صرف صبح ایک گلاس پانی دیں۔جب پھول پہ پھل نمودار ہوں،تو تب موسم کے اعتبار سے پانی دیجیے۔ صوبہ پنجاب اور سند ھ کے ہم وطن معتدل موسم والے مہینوں مثلاً اپریل مئی اور ستمبر میں ٹماٹر کے پودے لگا سکتے ہیں۔یوں انھیں نشوونما پانے کی خاطر مناسب ماحول ملتا ہے۔پھر تین چار ماہ بعد آپ گھر میں اگے رس بھرے،سرخ ٹماٹر کھا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ شروع میں غلطیاں کرنے کے باعث آپ کو کامیابی نہ ملے۔مگر حوصلہ نہ ہارئیے ،بلکہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر دوبارہ پودے اگایئے۔نیز ماہر باغبانوں اور مالیوں سے مشورہ کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔تھوڑے سے صبر اور محنت سے آپ بھی ماہر باغبان بن سکتے ہیں۔

سید عاصم محمود کی یہ تحریر روزنامہ دنیا لاہور ، 10 نومبر 2013ء کے ڈائجسٹ ایڈیشن میں شائع ہوئی

2017  Kitchen Gardening








AVAILABLE VEGETABLES SEEDS